منگل، 25 مارچ، 2008

میرےداداکی چِتاکوکس نےآگ لگائی؟۔۔۔ کالم

0 comments

میرےداداکی چِتاکوکس نےآگ لگائی؟
تحریر :    رحمان محمودخان


 عظیم سکالر سقراط کا قول ہے،
 "فنونِ لطیفہ کے ہر اس شخص کو ختم کردو جو فن اور اسکی گہرائی کو سمجھنے کی بجائے اسکا غلط رنگ میں پرچار کرکے عکاسی کرتا ہے ۔"
فن ‘فنونِ لطیفہ کا ایسا رکن ہے جس میں حالات و واقعات اور موقع کی مناسبت سے رنگ و آہنگ کی عکاسی ہو۔لیکن ہمارے ہاں دستور نرالاہے‘ہم اس فن کے دلدادہ بنتے چلے جارہے ہیں جس کے سَر اور پیر سے خود فن کے قابض دیوتا نابَلداور ناآشنا ہیں۔ہم نے فن کی ایک الگ تعریف بنالی ہے۔فنونِ لطیفہ سے وابستہ عصرِحاضر کے لوگ ‘ ثقافت اور تہذیب کی فن سے وابستگی کو فراموش کر چکے ہیں۔ہمارے ماضی اور حال کے چند فنکار گھروں میں بیٹھ کر نام نہاد"فن کاروں" کو دیکھنے پر مجبورہوچکے ہیں۔بے شک فن میں زیبائش کا عمل دخل ضرور ہوتا ہے لیکن اس میں وقت اور ماحول کی ثقافت و تہذیب اور اقدار بھی لازم و ملزوم ہے جو تقریباً برِّصغیر پاک و ہند میں ناپید ہو چکی ہے۔
ہم نے اپنے بڑوں سے سنا ہے کہ مشہوربھارتی سیاستدان اندرا گاندھی نے 1970ع کی دہائی میں بھارتی میڈیا کو یہ تنبیہہ کی،اگرمسلمانوں خصوصاً پاکستانیوں کو نیچا کرنا ہے تو اِن کی ثقافت میں بھارتی ثقافت کی آمیزش کردو اس طرح پاکستانی اپنی ثقافت میں تمیز برقرار نہ رکھ سکیں گے ‘اِن کو ثقافت کی مار دو،اور واقعی بھارتی چینلز نے ثقافتی یلغار کی اور آج ہماری مَسّخ شدہ ثقافت ان کی ہی ثقافت کی اصل شکل ہے۔
مشہوربھارتی سٹارسیریز کے چینلزکی بھرمار اور ان پر دکھائے جانے والے سیریلز ایسی کہانیاں بنا رہے ہیں جن کی مثال نہ اُن کی ثقافت میں ہے اور نہ پاکستانی ثقافت میں،لیکن ہماری نوجوان نسل اور (پچھلی) نوجوان نسل ان ڈراموں کو بہت ہی شوق اور تجسس کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ان ڈراموں میں دکھائے جانے والا لباس ،بول چال اور بڑوں کے ساتھ روّیہ مغربی ثقافت کی تو عکّاسی کرتا ہے لیکن مشرقی روایات کی رُو گردانی کرتا ہے‘جیسے کہ  ایک لڑکی نے بلاؤز اور نیکر پہنی ہوئی ہے اور وہ شاپنگ مال میں اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ شاپنگ کر رہی ہے اور پھر کچھ دیر بعد وہ آئس کریم پارلر میں دعوت اڑا رہی ہے ۔ اگر اِس عمل کا ہم اپنے معاشرے میں تصّور کریں تو یہ ناممکن ہے‘اِس طرح کے لباس کو تو ہندو معاشرے میں بھی ’پاپ‘ سمجھا جاتا ہے۔ہندی چینلز نے اپنی لیڈر اِندرا گاندھی کے قول کو تو سچ کر دکھایا لیکن ان کی اپنی ثقافت اس مقابلے کی وجہ سے”ڈانواڈول“ ہو گئی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ہماری ثقافت کے علمبردار بھی نجی طائفوں میں دوسرے ممالک میں جا کراسی ننگ پن اور چست پہن کا مظاہرہ کرواتے ہیں۔
کچھ عرصے سے پاکستانی نجی چینلز بھی بھارتی ڈرامہ سیریلز کی کاپی کرتے نظر آتے ہیں جس میں کھلم کھلا عشق ومحبت کا اظہار،کالج میں لڑکے لڑکیوں کے بد مزاح سین، بڑوں کے فرمان کی حکم عدولی اور وغیرہ وغیرہ۔ ڈراموں میں کچھ اِس انداز سے کالج کے مخلوط ماحول کی عکاسی کی جاتی ہے کہ جس کو بزرگ افراد اپنی بیٹیوں کےلیےبُرا اور معیوب سمجھتے ہوئے اُن کی کالج سے کنارا کشی کروادیتے ہیں۔جس کا اثر معاشرے میں رویوں کی خرابی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
ہندی چینلز تو اپنے مقصد میں کامیاب ہو چکے ہیں لیکن اب ناجانے پاکستانی سرکاری اور نجی چینلز کے کیا مقاصد ہیں؟درپردہ یہ چینلز بھی ان ہی کے لائحہ عمل کو آگے بڑھارہے ہیں۔ہمارے ڈراموںمیں اس "ننگ پن اور ساس، بہواور نند کی چالوں "کی ایسی روایت پڑ چکی ہے کہ جس کے بغیر کہانی ادھوری تصّور کی جاتی ہے۔اس بات کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا ' آٹھ سال پہلے تک بھی پاکستانی ڈراموں میں پاکستانی ثقافت ، ماحول ، سکرپٹ ، لوکیشن ، عکاسی ، کہانی ، بول چال،اَدب،مکالمے ، کردار نگاری اورزیبائش کا رَنگ چھلکتا تھا۔اسی وجہ سے وہ ڈرامے وقت کی زینت بنے اور عوام کے ذہنوں پر نقش ہوئے جب کہ آج ہمارے ڈراموں کا نہ وہ معیار رہا ہے اور نہ سکرپٹ پر محنت ماضی کی طرح ہے۔اس کام کی تعریف اکثر لوگ یہ کہہ کر کرتے ہیں کہ
 ماضی میں کہانی کی ڈیمانڈ ویسی تھی جب کہ آج دنیا گلوبل ویلیج کی شکل اختیار کر گئی ہے‘ ترقی ہو رہی ہے اس لیے اب کہانی بھی ایسی ہی بنے گی'لیکن اس دلیل پر اختلاف ہے کہ دنیا کے گلوبل ویلیج کے بننے سے ‘ کیا ہماری ثقافت اور ہمارے مسائل ختم ہو گئے یا بدل گئے ہیں؟میرے خیال سے ایسا نہیں ہے بَل کہ ان میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
آج اگر ایک باپ اپنی جواں سالہ بیٹیوں کو اِس بے ہودہ عکاسی کو دیکھنے سے روکتا ہے تو وہ باپ دقیانوسی خیالات کا مالک ہے،ہاںوہ باپ ماڈرن خیالات کا مالک اس وقت ہوسکتا ہے جب وہ اس ترقی کے  لبادے میں ننگ پن کی ثقافت کی عکاسی کو بمع اہل و عیال قہقے مارکر اور سر ہلا ہلا کر دیکھے! لیکن جب اسی باپ کا بچہ یہ سوال پوچھے کہ
 ”بابا!میرے دادا کی چِتّا کو کس نے آگ لگائی
 تو جواب آپ خود بیان کریں!
Feedback:peghaamnews@gmail.com
٭٭**٭٭

0 comments:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *