بدھ، 9 ستمبر، 2009

اللہ بہت غفور الرحیم ہے

0 comments

اللہ بہت غفور الرحیم ہے
تحریر و تحقیق: رحمان محمودخان
          رمضان المبارک کا مقدس اور برکتوں سے بھرپور مہینہ اپنی پوری آب وتاب اور رعنائیوں کے ساتھ رواں دواں ہے۔ہر ذی شعور یہ بات بھی بخوبی جانتا ہے کہ اس مہینے میں عبادت و تلاوت ِقرآنِ پاک کا ثواب بقیہ گیارہ مہینوں کی نسبت کتنا ہے!!اور روزہ رکھنے اور روزہ کے لوازمات پورا کرنے کا کتنا اجر وثواب ہے۔روزہ کے لوازمات تو یہی ہیں کہ غیبت ،چغلی،جھوٹ،مفاد پرستی الغرض ان تمام جملہ اوصاف غلیظہ سے بچا جائے اور ہر ممکن طور پر اپنی زبان،آنکھوں،ہاتھوں اور ٹانگوں کی حفاظت کی جائے کہ برائی کی جانب بڑھنے کی بجائے اچھائی اور نیکی کے کاموں کی طرف بڑھیں۔
        ایک اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان میں 78%طبقہ مکمل خشوع و خضوع اور دلجمعی سے روزے کی اہمیت کو جانتے ہوئے روزے رکھ رہے ہیں جبکہ18%طبقے کا کہنا ہے کہ انہوں نے کچھ روزے رکھے اور 4%پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ وہ روزے نہیں رکھتے کیونکہ وہ بڑھاپا اور دیگر بیماریوں میں مبتلا ہیں۔قارئین اس تمام کاروائی میں راقم ایک اور طرف اشارہ کرنا مناسب سمجھتا ہے وہ یہ ہے کہ بقیہ22%طبقہ (جو مختلف وجوہ کی بناءپر روزہ نہیں رکھتے)کہتے ہیں کہ ”اللہ بہت غفور الرحیم ہے،وہ معاف کرنے والا مہربان ہے“۔یہ تو وہی بات ہو گئی کہ ہم اسلام کو بھی اپنے مفاد کے لیے استعمال کر رہے ہیں جو وعید اللہ نے روزہ نہ رکھنے والے کو دی ہے اس سے مکمل منحرف ہوتے ہوئے بے شرمی سے بازاروں،گلیوں اور چوراہوں میں کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ”اللہ بہت غفور الرحیم ہے“۔اگر ہم روزہ نہیں رکھیں گے تو رب تعالیٰ کچھ نہیں کہے گا کیونکہ” وہ بہت غفور الرحیم ہے،اور معاف فرمانے والا ،مہربان ہے“۔
        لیکن قارئین یہ درست نہیں بے شک رب تعالیٰ کی ذات معاف کرنے والی،غفور الرحیم اور ہر صفت کی مالک ہے لیکن رب کے بنائے ہوئے اصولوں کو توڑنا اور اس پر نہایت دعویٰ سے یہ کہنا کہ اللہ معاف کردے گا،سراسر غلط اور اسلامی تعلیمات کو اپنے مفاد میں استعمال کرنے کے مترادف ہے۔ان حضرات کو روزہ کی سائنسی ،مذہبی اورجسمانی افادیت کا علم ہی نہیں ۔آج سائنس یہ اعتراف کر چکی ہے کہ روزہ رکھنے سے انسانی جسم پر ایسے اثرات مرتب ہوتے ہیں کہ جس سے انسانی اعضاءمیں شوگر سمیت کئی مہلک بیماریوں سے محفوظ رہا جا سکتا ہے جبکہ ہمارے ہاں یہ کہا جاتا کہ روزہ اس لیےنہیں رکھا کہ مجھے شوگر ہے،کوئی کہتا ہے کہ اس لیےنہیں رکھا کہ روزے کی وجہ سے میرا کولیسٹرول لیول ہائی ہو جاتا ہے (توبہ نعوذ بااللہ)۔روزہ اسلام کا ایک بنیادی رکن ہے جس سے منحرف ہونا یا عذرِباطل پیش کرنا ایساہی ہے جیسے اسلام کے بنیادی رکن کو جھٹلادےا ےا اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا(توبہ نعوذ بااللہ)۔
        یہ بات غور طلب ہے کہ آج مسلمان دنیا میں ذلیل و خوار کیوں ہو رہے ہیں۔اس کی صرف اور صرف یہی وجہ ہے کہ مسلم امہ نے اپنے آباءواجداد کے اصولوں کی پیروی اور تعلیمات سے روگردانی کر لی ہے،حالانکہ جتنے وسائل مسلمانوں کے پاس موجود ہیں اگر اسکا چند فیصد ہی مسلمانوں کی فلاح و بہبود کی طرف خرچ کر دیا جائے تو کچھ شک نہیں کہ ایک دن یہی ذلیل وخوار مسلمان یورپ کو منہ چڑا رہے ہوں لیکن یہ صرف اس وقت ہی ممکن ہے کہ جب مسلم اقوام ‘اسلامی تعلیمات کو اپنا شعار اور نصب العین بنالیں۔
        وہ بھی تو لوگ تھے جو تپتے صحراوںمیں روزہ کی حالت میں سفر کرتے اور بھوک پیاس سے عاری حالت ِروزہ میں جہاد کرتے۔پیٹ پر پتھر باندھ کر خود کو حوصلہ دیتے۔پیاس سے نڈھال ہونے کے باوجود روزے کی طوالت کو کوسنے کی بجائے صبرو شکر کے ساتھ وقت گزارتے اور جب روزہ افطار کرتے تو محض ایک کھجور اور ایک گلاس پانی پی کر رب تعالیٰ کا شکر بجا لاتے کبھی کبھار تو وہ لوگ ایک گلاس پانی سے ہی گزارہ کرتے اور اپنے حصہ کا بقیہ کھانا راہ ِخدا میں دے دیتے۔ لیکن اب توحالات یکسرمختلف ہیں ‘ائیر کنڈیشنڈ میں بیٹھنے کے باوجود اکثریت روزہ اس لیےنہیں رکھتی وہ اس میں نڈھال اور بدحال ہو جاتے ہیں‘چہرہ خراب ہونے کا ڈرہے وغیرہ وغیرہ جبکہ کچھ افرادشدید گرمی کا بہانہ سودمند سمجھتے ہوئے ‘تراشتے ہیں‘لیکن یہ سب محض تواہم پرستی اور کسی بندش سے بچنے کے ”خوبصورت “بہانے ہیں کیونکہ روزہ تو خود صبر برداشت کا نام ہے۔روزہ تو خود نفس پر حاوی ہوتا ہے یعنی نفس کشی کا نام ہے لیکن ان حضرات کا حال یہ ہے کہ ”ان کے“ روزے پر نفس اور بیماری حاوی رہتی ہے۔۔
        روزہ نہ رکھنے والے اکثر لوگ نہایت بے شرمی سے روزہ داروں کے سامنے کھانے کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں اور اگراس بارے میں انہیں کچھ سمجھایاجائے یا باز پرس کی جائے تو کوئی اپنی بیماری کایا بڑھاپے وغیرہ کا عذر پیش کرتے ہیں اور ایک جملہ کہہ دیتے ہیں کہ اللہ بہت غفور الرحیم ہے‘جبکہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ روزہ جان بوجھ کر ترک کیاتو اسے کفارہ ادا کرنا پڑے گایعنی کہ اسے ایک روزے کے بدلے ساٹھ روزے یعنی دو ماہ کے روزے یا 60مسکینوں کو کھانا کھلانا ہوگا۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر عاقل اور بالغ پرنماز کی طرح روزہ کی فرضیت سختی سے لاگو ہے۔سن ِبلوغت سے پہلے بچے پر روزہ کی فرضیت لاگو نہیں لیکن اگر وہ بچہ رضائے الہیٰ کےلیےروزہ خود رکھنا چاہے تو رکھ سکتا ہے ۔رب تعالیٰ نے صرف چھوٹ ان لوگوں کو دی ہے
1۔ جو واقعی بیمار ہیں اور روزہ رکھنے کی سکت نہیں رکھتے ۔
2۔ یا کوئی عورت خاص ایام میں مبتلا ہو یا کوئی عورت امید سے ہو۔
3۔ یا کوئی عورت اپنے بچے کو دودھ پلاتی ہو۔وہ بھی اس لیےتاکہ بچے کی خوراک پر کسی قسم کا مضر اثر نہ پڑے اس لیےروزہ رکھنے سے منع فرمایا۔
 لیکن ان لوگوں کو بھی طبیعت بحالی کے بعد روزہ کا کفارہ ادا کرنا پڑے گا۔ جسکی دو صورتیں بتائی گئیں ہیں:
1۔ صرف ایک روزہ چھوڑنے کے بدلے60مسکینوں کو کھانا کھلانا ۔
2۔ یا پھرصرف ایک روزہ چھوڑنے کے بدلے 60روزے رکھنا ہے۔
لب ِلباب ےہ کہ ان تمام باتوں سے کہیں بھی یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ اللہ نے روزہ رکھنے سے مکمل طور پر منع فرمایا ہے بلکہ مجبوری کے عالم میں روزہ نہ رکھنے والوں کو رعایت دی ہے تاکہ لوگوں میں ےہ تاثر نہ پایا جائے کہ اسلام نہایت سخت گیر مذہب و دین ہے لیکن کچھ حضرات نے اس چھوٹ کو یہ سمجھ لیا اور اسکا پرچار بھی شروع کردیا کہ روزہ نہ رکھا جائے اور یہ کہہ دیا جائے کہ اللہ بہت غفور الرحیم ہے ،وہ معاف کرنے والا مہربان ہے اور وہ چھوٹے ہوئے روزے معاف کر دے گا‘اور ہماری بیماری کی وجہ سے پکڑ نہیں ہوگی۔
        قارئین! جہاں روزہ اسلام کا بنیادی ستون ہے وہیں مومن کی زندگی میں آنے والے وہ خوشگور ایام ہیں جن کا کوئی نعم البدل نہیں۔اس لیےہر ممکن کوشش کرنی چاہئے کہ جان بوجھ کو روزہ نہ چھوڑا جائے ‘کیونکہ کہا جاتا ہے کہ رمضان المبارک کا مقدس مہینہ اللہ پاک کا اپنا مہینہ ہے اس لیےخاص طور پر اس مہینے کی فیوض و برکات کو سمجھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کابہترین موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہے۔
....٭٭٭....

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *