ہفتہ، 24 جنوری، 2009

کیا تاریخ بُش کےکارنامےبھلادےگی؟ ۔۔۔۔ کالم

0 comments
کیا تاریخ بُش کےکارنامےبھلادےگی؟
تحریر: رحمان محمود خان

قارئین!اس کالم کا عنوان ایک ایساسوال ہے جس کا جواب تو فی الحال کسی کے پاس نہیں ہے لیکن میرے نزدیک اس سوال کا درست جواب دینے کے لیےامریکہ کے نو منتخب صدر باراک حسین اوباما کو اَن تھک کوششیں اور محنت کرنا ہوگی،اگر باراک حسین اوباما ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے اپنے ہر فیصلے کو علاقائی مفاد اور عالمی تناظر میں پرکھیں گے اور پھر کوئی متفقہ فیصلہ کریں گے تو ایک دن تاریخ بش کے انسانیت سوز اورذلت آمیز کارناموں کو پسِ پشت ڈال دے گی۔
نوجوانوں اور بزرگوں اگر امریکہ کی دوستی کی وضاحت ایک مثال کے ذریعے دی جائے تو سمجھنے میں کافی آسانی ہو جائے گی۔امریکہ یا اس کے منتخب ہونے والے صدورکی ہم جیسے تیسری دنیا کے ممالک سے دوستی اور سلوک ایک سگریٹ کے ٹکڑے جیسا ہے ،پہلے جلایا ، بھڑکایا اور پھر پاؤں رکھ کر مَسل دیا۔جس طرح سگریٹ کوکچھ دیر تک سلگایا جاتا ہے اور پھر دھویں کے بھبھولے بنائے جاتے ہیں اور چند لمحوں بعد جلتی ہوئی راکھ کو پھینک دیا جاتا ہے ویسا ہی حال ہمارے ”دوست “ ملک امریکہ کا ہے۔
امریکی صدارتی مہم کے دوران اقوامِ عالم میں یہ بات بہت زوروشور سے گردش کررہی تھی کہ باراک حسین اوباما مسلمان ہیں اور اسی ناتے پاکستان کی عوام یکلخط دو گروہوں میں تقسیم ہوگئی ،ایک گروہ اوباما کو مسلمان کہنے پر مَصرہے اور دوسرا اُسے عیسائی کہنے پر تلا ہوا ہے۔لیکن دوستو بات مسلمان اور عیسائی کی نہیں ہے بلکہ بات توباراک حسین اوباما کے بقول ایک تبدیلی کے آغاز کی ہے۔اب یہ تبدیلی کس نوعیت کی ہوتی ہے؟اور کیا یہ تبدیلی صرف امریکی مفاد کے لیے ہوگی یا پھر تیسری دنیا کے ممالک بشمول پاکستان کے لیے بھی سود مند ہوگی؟مگر یہاں ذہن کے دریچوںمیں سوچا جائے تویہ محسوس کرنا ذرا بھی مشکل نہیں ہے کہ ہمارے ہاں تو اقتدار محض حکمرانی کا"چسکا "اور"لوٹنے "کا مہذب طریقہ ہوتا ہے،جبکہ یورپین ممالک کے حکمران منتخب ہو کر اپنی اور اپنے ملک کی بھلائی اور مفاد کے لیے کام کرتے ہیں۔ان سَرد ممالک کے نو منتخب حکمران اپنی جیبوں کو گرم کرنے کےلیے اپنے ممالک سے باہر نہ سوئس بنک اکاؤنٹ کھلواتے ہیں اور نہ ہی اپنے جسم کو"حرارت"پہنچانے کے لیے کوئی سرے محل جیسی شے بنواتے ہیں بلکہ وہ لوگ تو اپنی عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔اگر مزید غور کریں تو وہاں کے حکمران عوام کو اُجالوں کی نئی دنیا دینے کے خواہاں ہیں جب کہ ہمارے ہاں تو ایک گھنٹہ کا اُجالا،نالیوں سے پانی اور پائپوں سے گیس بھی چھین کر پتھر کے زمانے میں بھیجنے کا انتظام کیا جا رہا ہے۔بہرحال دِل سخت گرفتہ ہے اس لیے ہم اپنے عنوان سے تھوڑا سا کِھسک گئے۔ہاں! تو ہم بات کررہے تھے،جناب انکل بُش جونئیر کی، کہ کیا تاریخ بش کے کارنامے بھلا دے گی؟
قارئین !تاریخ ہمیشہ اپنے سنہرے اوراق میں ان لوگوں کو جگہ دیتی ہے جو فلاح و بہبود اور رہنمائی جیسے کارنامے سر انجام دیں،اور تاریخ کے سیاہ ابواب میں ان لوگوں کے لیے جگہ ہوتی ہے جو تخریب پسند اورضمیر کی آواز سے بے بہرہ ہوتے ہیں اور اب 20جنوری2009عکو ان سیاہ ابواب کے آخر میں ایک اور باب سابق انکل سام "بادِبم و غم" کا اضافہ ہوا ہے۔اس تخریب اور دہشت پسند شخص کی تاریخ بھی چار پانچ مُمالک پر مُحیط ہے جن میں پاکستان،افغانستان،فلسطین ،عراق اور برطانیہ شامل ہیں،اِن میں سے اوّل الذکر اور آخرالذکرملک تو ان صاحب کے قدم بقدم ساتھی رہے لیکن امریکہ اور بش کا دوست ہونے کے ناطے سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو اٹھانا پڑا جو شاید کہ ہمارے آنے والی نسلیں بھی اٹھائیں گی اور ہر پاکستانی جانتا ہے کہ اسی دوست ملک کی شہہ پرآج اسرائیل اور بھارت باالترتیب وحشیانہ بربریت اور ڈراوے دے رہے ہیں۔
تاریخ کے اس سیاہ باب کو تب ہی فراموش کیا جاسکتا ہے جب پاکستان کی بیساکھی والی جمہوریت اپنے پاؤں پرکھڑی ہو اور امریکہ بہادر کے "مسلمان"حکمران باراک حسین اوباما صحیح معنوں میں اَمن کے عَلمبردار بنتے ہوئے اسرائیل ،بھارت کو نتھ ڈالیں،اقوامِ عالم نے گزشتہ آٹھ سالوں سے دیکھ لیا ہے کہ واقعی جنگ مسائل کا حل نہیں۔اگر مہذب اقوام خود مسائل حل کرنے کی خواہاں ہیں تو مذاکرات کے ذریعے مسائل کا تصفیہ ہو سکتا ہے۔اگر جنگ ہی مسائل کا حل ہوتی تو آج افغانستان اور عراق پر لشکر کشی کے باوجود امریکہ بہادر حیلے بہانے سے مذاکرات کی باتیں نہ کررہا ہوتا۔اِس لیےاِن مہذب اقوام کو چاہیے کہ مل بیٹھ کر مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین کا حَل نکالے ، اور کسی ملک کو بھی دوسرے ملک کی حدود و قےود کی خلاف ورزی کرنے سے سختی سے روکا جائے ۔اگر اُن دونوں مسائل کا حل ہو جاتا ہے تو تقریباً آدھی دنیا پر امن ہو جائے گی۔اگر جارج بش کے کارناموں کو بھلانا مقصود ہے تواقوام ِ عالم کے ہمراہ اقوام ِ متحدہ کوبھی اپنا پرامن اورپرخلوص کردار ادا کرنا پڑے گا۔
دوستو تمام بات کا لب ِلباب یہ نکلاہے کہ بش اب ماضی کا کردار بن گیا ہے اور اس جہاں میں اس جیسے کرداروں کی کمی بھی نہیں ہے'  اس جیسے کارناموں کو دہرانا بے حد آسان ہے لیکن اس گزرے ہوئے کل کی تصیح کرنابے حد مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں۔گزرا ہوا کل، تو درست ہونے سا رہا مگر، آج ،سے لے کر ،آنے والے کل ،کو بہتر کرنے کا چیلنج اب صرف اور صرف "باراک حسین اوباما"کے سپرد ہے۔
Feedback:peghaamnews@gmail.com
٭٭**٭٭

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *