بدھ، 4 مارچ، 2009

منزِل کے لیے دو گام چلوں

0 comments
منزِل کےلیےدوگام چلوں
تحریر: رحمان محمود خان

باہمی چپقلش،قتل،ڈکیتی،رہزنی،اغواء،تشدّد،عَصمت فروشی،زنا،رشوت خوری،سفارش،حق تلفی،بَدعہدی،احسان فراموشی،عداوتیں،خوشامدیں،جان و مال و املاک کا نقصان،طبقاتی استحصالی،جھوٹ،محرومی،ناانصافی،دہشت گردی، فائرنگ،خودکش حملے وغیرہ سے مزین معاشرہ۔۔۔۔کیا کبھی ترقی کر سکتا ہے؟افسوس ناک بات یہ ہے کہ ان تمام "خوبیوں"سے آراستہ ہمارا معاشرہ ہے۔
٭  آخر کب تک ہمارے معاشرے کی ماؤں کے معصوم لخت ِجگر یونہی سڑکوں پر شہید ہو کر یادگار بنتے رہیں گے؟
٭  ہم کب تک تحقیقات کا ڈھنڈورا پیٹتے رہیں گے؟
٭ ہم کب تک دشمنان ِ وطن کو مواقع اور خلا دیتے رہیں گے؟
دوستو!یہ ایسے سوال ہیں جن کے جواب نہ تو ماؤں کی آنکھوں میں اٹکے ہوئے سوکھے آنسو دے سکتے ہیں اور نہ باپوں کے لرزتے ہاتھ۔یہ جواب نہ بیواؤں کی چیخوں کے پاس ہے اور نہ ہی شہداءکی وردی کے پاس ہیں۔اگر ایک بھی مجرم کو پہلے دن ہی سے کھلی چھوٹ دینے کی بجائے کیفر ِکردار تک پہنچایا دیا جاتا تو آج وطن ِ عزیز پر ذرا سی بھی آنچ نہ آتی۔
ہم ابھی تک ان 61سالوں میں منزل کا تعین ہی نہیں کر سکے۔اس عرصے میں ہر آنے والے آمر اور حکمران نے اکثر کام مشترک اور انتقام کےلیےکیے ہیں۔جو صرف اور صرف منفی ہی تھے۔یہ دیکھا گیا کہ ہر حادثے اور سانحے کے بعد مقتدر طبقے نے روایتی جملوں کا تبادلہ کیا اور نتیجہ صفر رہا،مجرم دندناتے پھرتے ہیں،قانون تو ہے مگر عملدرآمد نہیں،سکیورٹی تو ہے مگر تحفظ نہیں۔1947ع تا 2009ع تک پاکستان دوراہے پر ہی کھڑا ہے۔ایسے محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان آغاز سے ہی پل صراط سے گزر رہا ہے۔ایک حکومت کے جانے کے بعد نئے آنے والوں نے سابقہ حکومت کے اقدامات کو تہہ و بالا کر دےا اور نئے منصوبوں کا آغاز کر دیا،اس کے ساتھ ساتھ سابقہ دور کے اقدامات اور منصوبوں کو ناصرف تنقید کا نشانہ بنایا بل کہ جعلسازی اور دوسری دفعات لگا کر پھنسا دیا جاتا ہے۔
قارئین! درج بالا ذکر صرف ایک مختصر سی تصویر کشی ہے ۔جس کا سامنا آج ہمارے بزرگوں کو ہے تو کل لازماً ہمیں ہوگا۔ اس لئے آج نہیں ابھی سے یہ سوچنا ہوگا کہ ہمیں کن نقاط پر غور کرنا ہے؟مستقبل کے لیے کیا حکمت ِ عملی اپنانی چاہیے؟اور کیا اقدامات کرنے چاہیے؟آج ہمارے حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے کے علاوہ خارجہ پالیسی سمیت ہر پالیسی پر نظر ِثانی کرنا پڑے گی۔
گزشتہ روز سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملہ نا صرف پاکستان کو بدنام کرنے میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے بل کہ عوام کے پرانے زخموں کو بھی ہرا کر گیا ہے۔ایف آئی اے بلڈنگ کے بعد اب لبرٹی چوک بھی یادگار کے طور پر مشہور ہو گیا ہے۔پچھلی نسل والے کہتے تھے کہ فلاں جگہ پر قرارداد پاکستان پاس ہوئی اس لیےہاں یادگار بنائی گئی جب کہ ہم آنے والی نسلوں کو بتائیں گے کہ فلاں جگہ پر دہشت گردوں نے معصوم شہریوں کو شہید کیا تھا اس لیے وہاں یادگار بنائی گئی۔واللہ کیسا عالم ہوگا،اللہ کی پناہ۔
اندرون ِ ملک و بیرون ِملک ‘ تمام شخصیات نے اس واقعہ پر انتہائی افسوس اور دکھ کا اظہا ر کےا اور ہم نے ان تمام اظہار ِ افسوس کو آئندہ کے لیے محفوظ کر لیا ہے۔بہر حال اب حکومت ِ پاکستان کے آئندہ اقدامات کیا ہوں گے ؟یہ تو( آنے والاوقت نہیں) گزرا ہو ا کل بتا سکتا ہے۔نہایت افسوس ہوتا ہے کہ پاکستان بھٹکے ہوئے راہی کی طرح منزل سے دور ہوتا جارہا ہے۔پہلے تو دہشت گرد تقریباً عوام تک ہی محدود تھے لیکن اب تو ہمارے مہمان بھی ان کی زد سے بچ نہیں پا رہے۔اب مزید کوئی موقع نہیں،گڈ گورننس کے نام لیواؤں کوواقعی اپنے دلوں میں پاکستان کی خدمت اور ترقی کا مخلصانہ جذبہ موجزن کرنا پڑے گا ‘کیوں کہ جب جذبے اور کِردار مخلص ہوں تو سمت کا تعین آسان ہو جا تا ہے اور منزل ‘دوگام ہی چل کر مل جاتی ہے۔
Feedback:peghaamnews@gmail.com
٭٭**٭٭

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *