بدھ، 9 ستمبر، 2009

اللہ بہت غفور الرحیم ہے

0 comments

اللہ بہت غفور الرحیم ہے
تحریر و تحقیق: رحمان محمودخان
          رمضان المبارک کا مقدس اور برکتوں سے بھرپور مہینہ اپنی پوری آب وتاب اور رعنائیوں کے ساتھ رواں دواں ہے۔ہر ذی شعور یہ بات بھی بخوبی جانتا ہے کہ اس مہینے میں عبادت و تلاوت ِقرآنِ پاک کا ثواب بقیہ گیارہ مہینوں کی نسبت کتنا ہے!!اور روزہ رکھنے اور روزہ کے لوازمات پورا کرنے کا کتنا اجر وثواب ہے۔روزہ کے لوازمات تو یہی ہیں کہ غیبت ،چغلی،جھوٹ،مفاد پرستی الغرض ان تمام جملہ اوصاف غلیظہ سے بچا جائے اور ہر ممکن طور پر اپنی زبان،آنکھوں،ہاتھوں اور ٹانگوں کی حفاظت کی جائے کہ برائی کی جانب بڑھنے کی بجائے اچھائی اور نیکی کے کاموں کی طرف بڑھیں۔
        ایک اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان میں 78%طبقہ مکمل خشوع و خضوع اور دلجمعی سے روزے کی اہمیت کو جانتے ہوئے روزے رکھ رہے ہیں جبکہ18%طبقے کا کہنا ہے کہ انہوں نے کچھ روزے رکھے اور 4%پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ وہ روزے نہیں رکھتے کیونکہ وہ بڑھاپا اور دیگر بیماریوں میں مبتلا ہیں۔قارئین اس تمام کاروائی میں راقم ایک اور طرف اشارہ کرنا مناسب سمجھتا ہے وہ یہ ہے کہ بقیہ22%طبقہ (جو مختلف وجوہ کی بناءپر روزہ نہیں رکھتے)کہتے ہیں کہ ”اللہ بہت غفور الرحیم ہے،وہ معاف کرنے والا مہربان ہے“۔یہ تو وہی بات ہو گئی کہ ہم اسلام کو بھی اپنے مفاد کے لیے استعمال کر رہے ہیں جو وعید اللہ نے روزہ نہ رکھنے والے کو دی ہے اس سے مکمل منحرف ہوتے ہوئے بے شرمی سے بازاروں،گلیوں اور چوراہوں میں کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ”اللہ بہت غفور الرحیم ہے“۔اگر ہم روزہ نہیں رکھیں گے تو رب تعالیٰ کچھ نہیں کہے گا کیونکہ” وہ بہت غفور الرحیم ہے،اور معاف فرمانے والا ،مہربان ہے“۔
        لیکن قارئین یہ درست نہیں بے شک رب تعالیٰ کی ذات معاف کرنے والی،غفور الرحیم اور ہر صفت کی مالک ہے لیکن رب کے بنائے ہوئے اصولوں کو توڑنا اور اس پر نہایت دعویٰ سے یہ کہنا کہ اللہ معاف کردے گا،سراسر غلط اور اسلامی تعلیمات کو اپنے مفاد میں استعمال کرنے کے مترادف ہے۔ان حضرات کو روزہ کی سائنسی ،مذہبی اورجسمانی افادیت کا علم ہی نہیں ۔آج سائنس یہ اعتراف کر چکی ہے کہ روزہ رکھنے سے انسانی جسم پر ایسے اثرات مرتب ہوتے ہیں کہ جس سے انسانی اعضاءمیں شوگر سمیت کئی مہلک بیماریوں سے محفوظ رہا جا سکتا ہے جبکہ ہمارے ہاں یہ کہا جاتا کہ روزہ اس لیےنہیں رکھا کہ مجھے شوگر ہے،کوئی کہتا ہے کہ اس لیےنہیں رکھا کہ روزے کی وجہ سے میرا کولیسٹرول لیول ہائی ہو جاتا ہے (توبہ نعوذ بااللہ)۔روزہ اسلام کا ایک بنیادی رکن ہے جس سے منحرف ہونا یا عذرِباطل پیش کرنا ایساہی ہے جیسے اسلام کے بنیادی رکن کو جھٹلادےا ےا اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا(توبہ نعوذ بااللہ)۔
        یہ بات غور طلب ہے کہ آج مسلمان دنیا میں ذلیل و خوار کیوں ہو رہے ہیں۔اس کی صرف اور صرف یہی وجہ ہے کہ مسلم امہ نے اپنے آباءواجداد کے اصولوں کی پیروی اور تعلیمات سے روگردانی کر لی ہے،حالانکہ جتنے وسائل مسلمانوں کے پاس موجود ہیں اگر اسکا چند فیصد ہی مسلمانوں کی فلاح و بہبود کی طرف خرچ کر دیا جائے تو کچھ شک نہیں کہ ایک دن یہی ذلیل وخوار مسلمان یورپ کو منہ چڑا رہے ہوں لیکن یہ صرف اس وقت ہی ممکن ہے کہ جب مسلم اقوام ‘اسلامی تعلیمات کو اپنا شعار اور نصب العین بنالیں۔
        وہ بھی تو لوگ تھے جو تپتے صحراوںمیں روزہ کی حالت میں سفر کرتے اور بھوک پیاس سے عاری حالت ِروزہ میں جہاد کرتے۔پیٹ پر پتھر باندھ کر خود کو حوصلہ دیتے۔پیاس سے نڈھال ہونے کے باوجود روزے کی طوالت کو کوسنے کی بجائے صبرو شکر کے ساتھ وقت گزارتے اور جب روزہ افطار کرتے تو محض ایک کھجور اور ایک گلاس پانی پی کر رب تعالیٰ کا شکر بجا لاتے کبھی کبھار تو وہ لوگ ایک گلاس پانی سے ہی گزارہ کرتے اور اپنے حصہ کا بقیہ کھانا راہ ِخدا میں دے دیتے۔ لیکن اب توحالات یکسرمختلف ہیں ‘ائیر کنڈیشنڈ میں بیٹھنے کے باوجود اکثریت روزہ اس لیےنہیں رکھتی وہ اس میں نڈھال اور بدحال ہو جاتے ہیں‘چہرہ خراب ہونے کا ڈرہے وغیرہ وغیرہ جبکہ کچھ افرادشدید گرمی کا بہانہ سودمند سمجھتے ہوئے ‘تراشتے ہیں‘لیکن یہ سب محض تواہم پرستی اور کسی بندش سے بچنے کے ”خوبصورت “بہانے ہیں کیونکہ روزہ تو خود صبر برداشت کا نام ہے۔روزہ تو خود نفس پر حاوی ہوتا ہے یعنی نفس کشی کا نام ہے لیکن ان حضرات کا حال یہ ہے کہ ”ان کے“ روزے پر نفس اور بیماری حاوی رہتی ہے۔۔
        روزہ نہ رکھنے والے اکثر لوگ نہایت بے شرمی سے روزہ داروں کے سامنے کھانے کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں اور اگراس بارے میں انہیں کچھ سمجھایاجائے یا باز پرس کی جائے تو کوئی اپنی بیماری کایا بڑھاپے وغیرہ کا عذر پیش کرتے ہیں اور ایک جملہ کہہ دیتے ہیں کہ اللہ بہت غفور الرحیم ہے‘جبکہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ روزہ جان بوجھ کر ترک کیاتو اسے کفارہ ادا کرنا پڑے گایعنی کہ اسے ایک روزے کے بدلے ساٹھ روزے یعنی دو ماہ کے روزے یا 60مسکینوں کو کھانا کھلانا ہوگا۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر عاقل اور بالغ پرنماز کی طرح روزہ کی فرضیت سختی سے لاگو ہے۔سن ِبلوغت سے پہلے بچے پر روزہ کی فرضیت لاگو نہیں لیکن اگر وہ بچہ رضائے الہیٰ کےلیےروزہ خود رکھنا چاہے تو رکھ سکتا ہے ۔رب تعالیٰ نے صرف چھوٹ ان لوگوں کو دی ہے
1۔ جو واقعی بیمار ہیں اور روزہ رکھنے کی سکت نہیں رکھتے ۔
2۔ یا کوئی عورت خاص ایام میں مبتلا ہو یا کوئی عورت امید سے ہو۔
3۔ یا کوئی عورت اپنے بچے کو دودھ پلاتی ہو۔وہ بھی اس لیےتاکہ بچے کی خوراک پر کسی قسم کا مضر اثر نہ پڑے اس لیےروزہ رکھنے سے منع فرمایا۔
 لیکن ان لوگوں کو بھی طبیعت بحالی کے بعد روزہ کا کفارہ ادا کرنا پڑے گا۔ جسکی دو صورتیں بتائی گئیں ہیں:
1۔ صرف ایک روزہ چھوڑنے کے بدلے60مسکینوں کو کھانا کھلانا ۔
2۔ یا پھرصرف ایک روزہ چھوڑنے کے بدلے 60روزے رکھنا ہے۔
لب ِلباب ےہ کہ ان تمام باتوں سے کہیں بھی یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ اللہ نے روزہ رکھنے سے مکمل طور پر منع فرمایا ہے بلکہ مجبوری کے عالم میں روزہ نہ رکھنے والوں کو رعایت دی ہے تاکہ لوگوں میں ےہ تاثر نہ پایا جائے کہ اسلام نہایت سخت گیر مذہب و دین ہے لیکن کچھ حضرات نے اس چھوٹ کو یہ سمجھ لیا اور اسکا پرچار بھی شروع کردیا کہ روزہ نہ رکھا جائے اور یہ کہہ دیا جائے کہ اللہ بہت غفور الرحیم ہے ،وہ معاف کرنے والا مہربان ہے اور وہ چھوٹے ہوئے روزے معاف کر دے گا‘اور ہماری بیماری کی وجہ سے پکڑ نہیں ہوگی۔
        قارئین! جہاں روزہ اسلام کا بنیادی ستون ہے وہیں مومن کی زندگی میں آنے والے وہ خوشگور ایام ہیں جن کا کوئی نعم البدل نہیں۔اس لیےہر ممکن کوشش کرنی چاہئے کہ جان بوجھ کو روزہ نہ چھوڑا جائے ‘کیونکہ کہا جاتا ہے کہ رمضان المبارک کا مقدس مہینہ اللہ پاک کا اپنا مہینہ ہے اس لیےخاص طور پر اس مہینے کی فیوض و برکات کو سمجھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کابہترین موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہے۔
....٭٭٭....

جمعرات، 30 اپریل، 2009

دنیاکےمحنت کشوں۔۔۔۔ جیتنےکےلیےساراجہاں پڑاہے

0 comments
دنیاکےمحنت کشوں۔۔۔۔ جیتنےکےلیےساراجہاں پڑاہے
تحریر:      رحمان محمود خان

"دنیا کے محنت کشوں! متحد ہو جاؤ
کھونے کے لیے تمہارے پاس تمہاری
 غلامی کی زنجیروں کے سوا کچھ نہیں اور
 جیتنے کے لیے ساری دنیا پڑی ہے"
آج سے تقریباً 122سال قبل یکم مئی1886عکو امریکہ کے شہر شکاگو سٹی کے “ہئے مارکیٹ اسکوائر” میں عالمی مزدور تحریک کے منّظم کارکنان اپنے مطالبات منوانے کے لیےجمع ہوئے،تب سامراجی طاقتوں کے حکم پر ان کے وحشی سپاہیوں نے چاروں طرف سے گولیوں کی بوچھاڑ کر دی اور اس سانحہ میں لاتعدا بے گناہ مزدوروں کے خون سے مارکیٹ اسکوائر کی سڑک کو نہلا دیا گیا۔آٹھ مزدور لیڈروں کو گرفتا ر کر کے انہیں سزائے موت سنا دی گئی۔اس سانحے کے تقریباً تین سال بعد1889عمیں یہ فیصلہ کیا گیا کہ آئندہ ہر سال یکم مئی کو ساری دنیا کے محنت کش اس عظیم سانحے کو یاد کرنے کے لیے”یومِ مئی” منائیں گے۔
دنیا جو گلوبل ویلج کا روپ دھار چکی ہے ‘ اسکا مزدور بے پناہ مسائل اور مشکلات سے نبرد آزما ہے۔بورژوا نظام پنجے گاڑے بیٹھا ہے اور مزدور تحریک کو دبانے اور کچلنے کے لیےاوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتا۔جب محنت کش مرد و خواتین تمام دن کی محنت و مشقت کر کے تھکے ماندے گھروں کو لوٹتے ہیں تو ان کے پاس اپنی ذات کو وقت دینے کا بھی "وقت"نہیں ہوتااور یہ طبقہ اپنے حقوق سے نابلد ہونے اور اپنی اپنی ٹریڈ یونین سے لاتعلقی اور لا علمی کے باعث قانونی سہولیات سے محروم ہے۔لمبے اوقات کار،کم معاوضہ،ٹھیکیداری نظام،صحت و تحفظ کی سہولیات کا فقدان اور گھریلو ذمہ داریاں جیسے عوامل ان کے استحصال کی بھی ایک وجہ ہے۔محنت کش طبقہ اپنے حقوق سے لاعلم ہے جسکی وجہ سی انکو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ جو معاوضہ انکو دیا جا رہا ہے‘کیاوہ لیبر قوانین کے عین مطابق ہے؟انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (ILO) کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے 89فیصد شہریوں کی زندگی کا دارومدار اتفاقیہ آمدن پر ہے جبکہ پاکستان کی15فیصد آبادی پرائیویٹ اور گورنمنٹ سیکٹر میں ملازمین ہیں اور ملک میں شاندار “معاشی ترقی “ کے باعث45فیصد آبادی غربت کی حد سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔مزدوروں کی محنت پر” پلنے والے” صنعت کار اور سرمایہ دار طبقے کی ہر ممکن یہ کوشش رہی ہے کہ مزدور طبقے کوکالے قوانین کے ذریعے یاتوکچل دیاجائے یا پھر عارضی سہولیات کے معاہدوں کے ذریعے سمجھوتہ بازی کر لی جائے،جب ضرورت ہو تب ٹریڈ یونین پر پابندی عائد کر دی جائے اور جب ضرورت پڑے تو ٹریڈ یونین کی بحالی کر دی جائے۔
آزادی کے 60برس بعد بھی جاگیردارانہ نظام پوری آب وتاب کے ساتھ موجود ہے۔وطنِ عزیز کی تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کا حکمران طبقہ چاہے وہ وردی والا ہو یا بغیر وردی کے‘60 سالوں سے محنت کش طبقے کا استحصال کر رہا ہے اور اسے جب موقع ملا اس نے محنت کشوں کے حقوق پر کاری ضرب لگائی۔آج محنت کشوں کی اکثریت خواتین پر مشتمل ہے مگر یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہمارا سسٹم ان کو کسی “کھاتے “میں نہیں لکھتااور انکو مکمل نظر انداز کیا جاتا ہے یا پھران خواتین کو غیر رسمی شعبے اور ڈیکوریشن پیس کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
آج جب دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں مزدور تحریک کی جہدِ مسلسل کی وجہ سے محنت کش طبقہ قدری بہتر زندگی گزار رہا ہے لیکن تیسری دنیا بشمول پاکستان کاہنر مند نوجون اور محنت کش طبقہ 1886ع والے محنت کشوں سے بھی زیادہ دردناک زندگی گزار رہا ہے۔سفید پوش طبقے سے لے کرمزدور طبقے تک سب کے سب معاشی اور ذہنی پریشانیوں میں مبتلا ہیں۔دو وقت کی روٹی کا مسئلہ بنا ہوا ہے،مہنگائی کے ہولناک سیلاب کے آگے بند باندھنا مشکل بلکہ ناممکن بنتا چلا جارہا ہے۔روزگار کے حصول کے لیےرشوت اور سفارش لازم و ملزوم ہیں۔ہنر مند افراد قابلِ قدر معاوضہ اور نامساعد حالات کے باعث دلبرداشتہ ہو کر خود کشی کی طرف مائل ہو رہا ہے۔تنخواہ‘مہنگائی کے تناسب سے انتہائی قلیل ہے۔ان دلبرداشتہ حالات سے ناصرف مزدور نبرد آزما ہے بلکہ دفاتر میں کام کرنے والا کلیریکل سٹاف بھی برداشت کرنے پر مجبور ہے۔پرائیویٹ اداروں میں نوجوانوں سے ٹرینی (بغیر معاوضہ )کے طور پر کام لیا جاتا ہے، ڈگری ہاتھ میں لیےاس “آوارہ” نوجوان کو پہلے تو نوکری نہیں ملتی اور اگر ملتی ہے تو سب سے پہلے ٹرینی (ٹریننگ) جاب دی جاتی ہے اور اس طرح وہ نوجوان ٹرینی کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے اپنے ہنر سے استفادہ نہیں کر سکتا اور تین ماہ کے اس عرصے میں اس پر سست روی اور نااہلی کا الزام لگا کر فارغ کر دیا جاتا ہے۔پرائیویٹ اداروں میں ہنر مند افراد کو بہت کم معاوضہ دیا جاتا ہے جس سے بمشکل انکا خرچ پورا ہوتا ہے جبکہ سرکاری دفاتر میں محدود تعداد میں کنٹریکٹ پر بھرتیاں کی جاتی ہیں اور اگر بھرتیاں میرٹ پر ہوں تو رشوت اور سفارش لازمی ہے ۔گویا کہ ٹرینی،دیہاڑی داراور کنٹریکٹ نظام کے تحت کام کرنے والے ملازمین کو زنجیروں میں جکڑ کر کام لیا جاتا ہے اور اگر کوئی حق اور انصاف کی آوازاٹھائے تو پہلے نا اہل اور بھر "فارغ" کر دیا جاتا ہے۔
تیسری دنیاکے ممالک‘ خصوصاً پاکستان میں مزدوروں کے مسائل تو بیان کئے جاتے ہیں لیکن ایک طبقہ ایسا بھی ہے جس کے مسائل کا ذکر نہ تو ریلیوں میں کیا جاتا ہے اور نہ ہی کارنر میٹنگ میں۔یہ طبقہ جن مسائل سے دوچار ہے ان کا ادراک صرف اور صرف اسی طبقے تک محدود ہے۔یہ بےچارے شریف لوگ پرائیویٹ اور گورنمنٹ کے “نوکر” کلرک ہیں۔گورنمنٹ سیکٹر میں یہ لوگ آواز بلند کریں تو متحدجدوجہد کرنے والے پلیٹ فارم کے نہ ہونے کی وجہ سے یہ آواز دبا دی جاتی ہے اور نتیجتاً مسائل کو ختم کرنے کے لیے رشوت کا سہارا لیا جاتا ہے جس سے معاشرہ پستی کی طرف چلا جاتا ہے۔پرائیویٹ سیکٹر میں قانون اور اصول پرعمل درآمدنہ ہونے کی وجہ سے ان لوگوں کو کم تنخواہ میں 12سے15گھنٹے ڈیوٹی سرانجام دینی پڑتی ہے اور اگر کوئی اصول کی بات کرے تو اس کو الزامات کی بھینٹ چڑھا کر “فارغ” کر دیا جاتا ہے اور اس کی جگہ پر ایک نیا “بدھو” بھرتی کر کےمقابلے کے نام پر جو" کالی "فضا پیدا کی ہے 'اس نے ایک ملازم کے پیچھے درجنوں ملازمت حاصل کرنے والوں کی نظریں لگائی ہوئی ہے۔
سامراجی طاقتوں کی یہ روش ہے کہ جب بھی اور جہاں بھی سامراج نے اپنے روبرو خطرہ محسوس کیا وہاں اس نے حملے شروع کر دیئے،کبھی یہ حملے گولیوں کی بوچھاڑ سے ہوئے تو کبھی قانون سازی کے ذریعے۔ان حالات میں اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ آج کامزدور ،محنت کش اور نوجوان ‘سسٹم کی بہتری کے لیے متحد ہو کر ایک پلیٹ فارم سے جدوجہد کریں۔سرمایہ دار، صنعت کار، وڈیروں اور جاگیر داروں نے ہمیشہ محنت کش کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا ،اب اس حصار کو توڑنے کی ضرورت ہے جو ہم جیسے لوگوں کو گرفت میں لیے ہوئے ہے۔
تاریخ ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ظلم وستم اور جبر کے ذریعے تحریک کی جدوجہد میں رکاوٹ تو ڈالی جاسکتی ہے مگر اس کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔محنت کشوں کے پاس اپنی محنت کے سوا ہے ہی کےاجسکے چھننے کا انکو ڈر یا خوف لاحق ہو۔مارکسی فلسفے کا یہ مارکسی قول ہے
دنیا کے محنت کشوں! متحد ہو جاؤ
کھونے کے لیے تمہارے پاس تمہاری
 غلامی کی زنجیروں کے سوا کچھ نہیں اور
 جیتنے کے لیے ساری دنیا پڑی ہے”۔
بلاشبہ ہمارے پاس کھونے کے لیے زنجیریں اور جیتنے کے لیے یہ سارا جہان ہے۔
Feedback:peghaamnews@gmail.com
٭٭**٭٭

بدھ، 4 مارچ، 2009

منزِل کے لیے دو گام چلوں

0 comments
منزِل کےلیےدوگام چلوں
تحریر: رحمان محمود خان

باہمی چپقلش،قتل،ڈکیتی،رہزنی،اغواء،تشدّد،عَصمت فروشی،زنا،رشوت خوری،سفارش،حق تلفی،بَدعہدی،احسان فراموشی،عداوتیں،خوشامدیں،جان و مال و املاک کا نقصان،طبقاتی استحصالی،جھوٹ،محرومی،ناانصافی،دہشت گردی، فائرنگ،خودکش حملے وغیرہ سے مزین معاشرہ۔۔۔۔کیا کبھی ترقی کر سکتا ہے؟افسوس ناک بات یہ ہے کہ ان تمام "خوبیوں"سے آراستہ ہمارا معاشرہ ہے۔
٭  آخر کب تک ہمارے معاشرے کی ماؤں کے معصوم لخت ِجگر یونہی سڑکوں پر شہید ہو کر یادگار بنتے رہیں گے؟
٭  ہم کب تک تحقیقات کا ڈھنڈورا پیٹتے رہیں گے؟
٭ ہم کب تک دشمنان ِ وطن کو مواقع اور خلا دیتے رہیں گے؟
دوستو!یہ ایسے سوال ہیں جن کے جواب نہ تو ماؤں کی آنکھوں میں اٹکے ہوئے سوکھے آنسو دے سکتے ہیں اور نہ باپوں کے لرزتے ہاتھ۔یہ جواب نہ بیواؤں کی چیخوں کے پاس ہے اور نہ ہی شہداءکی وردی کے پاس ہیں۔اگر ایک بھی مجرم کو پہلے دن ہی سے کھلی چھوٹ دینے کی بجائے کیفر ِکردار تک پہنچایا دیا جاتا تو آج وطن ِ عزیز پر ذرا سی بھی آنچ نہ آتی۔
ہم ابھی تک ان 61سالوں میں منزل کا تعین ہی نہیں کر سکے۔اس عرصے میں ہر آنے والے آمر اور حکمران نے اکثر کام مشترک اور انتقام کےلیےکیے ہیں۔جو صرف اور صرف منفی ہی تھے۔یہ دیکھا گیا کہ ہر حادثے اور سانحے کے بعد مقتدر طبقے نے روایتی جملوں کا تبادلہ کیا اور نتیجہ صفر رہا،مجرم دندناتے پھرتے ہیں،قانون تو ہے مگر عملدرآمد نہیں،سکیورٹی تو ہے مگر تحفظ نہیں۔1947ع تا 2009ع تک پاکستان دوراہے پر ہی کھڑا ہے۔ایسے محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان آغاز سے ہی پل صراط سے گزر رہا ہے۔ایک حکومت کے جانے کے بعد نئے آنے والوں نے سابقہ حکومت کے اقدامات کو تہہ و بالا کر دےا اور نئے منصوبوں کا آغاز کر دیا،اس کے ساتھ ساتھ سابقہ دور کے اقدامات اور منصوبوں کو ناصرف تنقید کا نشانہ بنایا بل کہ جعلسازی اور دوسری دفعات لگا کر پھنسا دیا جاتا ہے۔
قارئین! درج بالا ذکر صرف ایک مختصر سی تصویر کشی ہے ۔جس کا سامنا آج ہمارے بزرگوں کو ہے تو کل لازماً ہمیں ہوگا۔ اس لئے آج نہیں ابھی سے یہ سوچنا ہوگا کہ ہمیں کن نقاط پر غور کرنا ہے؟مستقبل کے لیے کیا حکمت ِ عملی اپنانی چاہیے؟اور کیا اقدامات کرنے چاہیے؟آج ہمارے حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے کے علاوہ خارجہ پالیسی سمیت ہر پالیسی پر نظر ِثانی کرنا پڑے گی۔
گزشتہ روز سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملہ نا صرف پاکستان کو بدنام کرنے میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے بل کہ عوام کے پرانے زخموں کو بھی ہرا کر گیا ہے۔ایف آئی اے بلڈنگ کے بعد اب لبرٹی چوک بھی یادگار کے طور پر مشہور ہو گیا ہے۔پچھلی نسل والے کہتے تھے کہ فلاں جگہ پر قرارداد پاکستان پاس ہوئی اس لیےہاں یادگار بنائی گئی جب کہ ہم آنے والی نسلوں کو بتائیں گے کہ فلاں جگہ پر دہشت گردوں نے معصوم شہریوں کو شہید کیا تھا اس لیے وہاں یادگار بنائی گئی۔واللہ کیسا عالم ہوگا،اللہ کی پناہ۔
اندرون ِ ملک و بیرون ِملک ‘ تمام شخصیات نے اس واقعہ پر انتہائی افسوس اور دکھ کا اظہا ر کےا اور ہم نے ان تمام اظہار ِ افسوس کو آئندہ کے لیے محفوظ کر لیا ہے۔بہر حال اب حکومت ِ پاکستان کے آئندہ اقدامات کیا ہوں گے ؟یہ تو( آنے والاوقت نہیں) گزرا ہو ا کل بتا سکتا ہے۔نہایت افسوس ہوتا ہے کہ پاکستان بھٹکے ہوئے راہی کی طرح منزل سے دور ہوتا جارہا ہے۔پہلے تو دہشت گرد تقریباً عوام تک ہی محدود تھے لیکن اب تو ہمارے مہمان بھی ان کی زد سے بچ نہیں پا رہے۔اب مزید کوئی موقع نہیں،گڈ گورننس کے نام لیواؤں کوواقعی اپنے دلوں میں پاکستان کی خدمت اور ترقی کا مخلصانہ جذبہ موجزن کرنا پڑے گا ‘کیوں کہ جب جذبے اور کِردار مخلص ہوں تو سمت کا تعین آسان ہو جا تا ہے اور منزل ‘دوگام ہی چل کر مل جاتی ہے۔
Feedback:peghaamnews@gmail.com
٭٭**٭٭

پیر، 9 فروری، 2009

BADALTI HOWI DUNYA AUR HAMARA NU JAWAN

0 comments
بدلتی ہوئی دنیا اور ہمارا نوجوان
اشاعت:ماہنامہ ندائے ملت (5فروری2009ع)
Email: peghaamnews@gmail.com

ہفتہ، 24 جنوری، 2009

کیا تاریخ بُش کےکارنامےبھلادےگی؟ ۔۔۔۔ کالم

0 comments
کیا تاریخ بُش کےکارنامےبھلادےگی؟
تحریر: رحمان محمود خان

قارئین!اس کالم کا عنوان ایک ایساسوال ہے جس کا جواب تو فی الحال کسی کے پاس نہیں ہے لیکن میرے نزدیک اس سوال کا درست جواب دینے کے لیےامریکہ کے نو منتخب صدر باراک حسین اوباما کو اَن تھک کوششیں اور محنت کرنا ہوگی،اگر باراک حسین اوباما ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے اپنے ہر فیصلے کو علاقائی مفاد اور عالمی تناظر میں پرکھیں گے اور پھر کوئی متفقہ فیصلہ کریں گے تو ایک دن تاریخ بش کے انسانیت سوز اورذلت آمیز کارناموں کو پسِ پشت ڈال دے گی۔
نوجوانوں اور بزرگوں اگر امریکہ کی دوستی کی وضاحت ایک مثال کے ذریعے دی جائے تو سمجھنے میں کافی آسانی ہو جائے گی۔امریکہ یا اس کے منتخب ہونے والے صدورکی ہم جیسے تیسری دنیا کے ممالک سے دوستی اور سلوک ایک سگریٹ کے ٹکڑے جیسا ہے ،پہلے جلایا ، بھڑکایا اور پھر پاؤں رکھ کر مَسل دیا۔جس طرح سگریٹ کوکچھ دیر تک سلگایا جاتا ہے اور پھر دھویں کے بھبھولے بنائے جاتے ہیں اور چند لمحوں بعد جلتی ہوئی راکھ کو پھینک دیا جاتا ہے ویسا ہی حال ہمارے ”دوست “ ملک امریکہ کا ہے۔
امریکی صدارتی مہم کے دوران اقوامِ عالم میں یہ بات بہت زوروشور سے گردش کررہی تھی کہ باراک حسین اوباما مسلمان ہیں اور اسی ناتے پاکستان کی عوام یکلخط دو گروہوں میں تقسیم ہوگئی ،ایک گروہ اوباما کو مسلمان کہنے پر مَصرہے اور دوسرا اُسے عیسائی کہنے پر تلا ہوا ہے۔لیکن دوستو بات مسلمان اور عیسائی کی نہیں ہے بلکہ بات توباراک حسین اوباما کے بقول ایک تبدیلی کے آغاز کی ہے۔اب یہ تبدیلی کس نوعیت کی ہوتی ہے؟اور کیا یہ تبدیلی صرف امریکی مفاد کے لیے ہوگی یا پھر تیسری دنیا کے ممالک بشمول پاکستان کے لیے بھی سود مند ہوگی؟مگر یہاں ذہن کے دریچوںمیں سوچا جائے تویہ محسوس کرنا ذرا بھی مشکل نہیں ہے کہ ہمارے ہاں تو اقتدار محض حکمرانی کا"چسکا "اور"لوٹنے "کا مہذب طریقہ ہوتا ہے،جبکہ یورپین ممالک کے حکمران منتخب ہو کر اپنی اور اپنے ملک کی بھلائی اور مفاد کے لیے کام کرتے ہیں۔ان سَرد ممالک کے نو منتخب حکمران اپنی جیبوں کو گرم کرنے کےلیے اپنے ممالک سے باہر نہ سوئس بنک اکاؤنٹ کھلواتے ہیں اور نہ ہی اپنے جسم کو"حرارت"پہنچانے کے لیے کوئی سرے محل جیسی شے بنواتے ہیں بلکہ وہ لوگ تو اپنی عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔اگر مزید غور کریں تو وہاں کے حکمران عوام کو اُجالوں کی نئی دنیا دینے کے خواہاں ہیں جب کہ ہمارے ہاں تو ایک گھنٹہ کا اُجالا،نالیوں سے پانی اور پائپوں سے گیس بھی چھین کر پتھر کے زمانے میں بھیجنے کا انتظام کیا جا رہا ہے۔بہرحال دِل سخت گرفتہ ہے اس لیے ہم اپنے عنوان سے تھوڑا سا کِھسک گئے۔ہاں! تو ہم بات کررہے تھے،جناب انکل بُش جونئیر کی، کہ کیا تاریخ بش کے کارنامے بھلا دے گی؟
قارئین !تاریخ ہمیشہ اپنے سنہرے اوراق میں ان لوگوں کو جگہ دیتی ہے جو فلاح و بہبود اور رہنمائی جیسے کارنامے سر انجام دیں،اور تاریخ کے سیاہ ابواب میں ان لوگوں کے لیے جگہ ہوتی ہے جو تخریب پسند اورضمیر کی آواز سے بے بہرہ ہوتے ہیں اور اب 20جنوری2009عکو ان سیاہ ابواب کے آخر میں ایک اور باب سابق انکل سام "بادِبم و غم" کا اضافہ ہوا ہے۔اس تخریب اور دہشت پسند شخص کی تاریخ بھی چار پانچ مُمالک پر مُحیط ہے جن میں پاکستان،افغانستان،فلسطین ،عراق اور برطانیہ شامل ہیں،اِن میں سے اوّل الذکر اور آخرالذکرملک تو ان صاحب کے قدم بقدم ساتھی رہے لیکن امریکہ اور بش کا دوست ہونے کے ناطے سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو اٹھانا پڑا جو شاید کہ ہمارے آنے والی نسلیں بھی اٹھائیں گی اور ہر پاکستانی جانتا ہے کہ اسی دوست ملک کی شہہ پرآج اسرائیل اور بھارت باالترتیب وحشیانہ بربریت اور ڈراوے دے رہے ہیں۔
تاریخ کے اس سیاہ باب کو تب ہی فراموش کیا جاسکتا ہے جب پاکستان کی بیساکھی والی جمہوریت اپنے پاؤں پرکھڑی ہو اور امریکہ بہادر کے "مسلمان"حکمران باراک حسین اوباما صحیح معنوں میں اَمن کے عَلمبردار بنتے ہوئے اسرائیل ،بھارت کو نتھ ڈالیں،اقوامِ عالم نے گزشتہ آٹھ سالوں سے دیکھ لیا ہے کہ واقعی جنگ مسائل کا حل نہیں۔اگر مہذب اقوام خود مسائل حل کرنے کی خواہاں ہیں تو مذاکرات کے ذریعے مسائل کا تصفیہ ہو سکتا ہے۔اگر جنگ ہی مسائل کا حل ہوتی تو آج افغانستان اور عراق پر لشکر کشی کے باوجود امریکہ بہادر حیلے بہانے سے مذاکرات کی باتیں نہ کررہا ہوتا۔اِس لیےاِن مہذب اقوام کو چاہیے کہ مل بیٹھ کر مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین کا حَل نکالے ، اور کسی ملک کو بھی دوسرے ملک کی حدود و قےود کی خلاف ورزی کرنے سے سختی سے روکا جائے ۔اگر اُن دونوں مسائل کا حل ہو جاتا ہے تو تقریباً آدھی دنیا پر امن ہو جائے گی۔اگر جارج بش کے کارناموں کو بھلانا مقصود ہے تواقوام ِ عالم کے ہمراہ اقوام ِ متحدہ کوبھی اپنا پرامن اورپرخلوص کردار ادا کرنا پڑے گا۔
دوستو تمام بات کا لب ِلباب یہ نکلاہے کہ بش اب ماضی کا کردار بن گیا ہے اور اس جہاں میں اس جیسے کرداروں کی کمی بھی نہیں ہے'  اس جیسے کارناموں کو دہرانا بے حد آسان ہے لیکن اس گزرے ہوئے کل کی تصیح کرنابے حد مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں۔گزرا ہوا کل، تو درست ہونے سا رہا مگر، آج ،سے لے کر ،آنے والے کل ،کو بہتر کرنے کا چیلنج اب صرف اور صرف "باراک حسین اوباما"کے سپرد ہے۔
Feedback:peghaamnews@gmail.com
٭٭**٭٭

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *