اتوار، 31 جولائی، 2011

تھانہ کلچر اور پولیس گردی

1 comments
 تھانہ کلچر اور ۔۔۔کالم
تھانہ کلچر اور پولیس گردی
تحریر: رحمان محمودخان
کیاتھانہ کلچر کبھی ختم ہوگا؟
یہ ایک ایسا چبھتا سوال ہے جس کا جواب دلائل کی لمبی فہرست کے ساتھ روزانہ ملک کے اخبارات و جرائدکی زینت بنتا ہے،پاکستان کا کوئی ایسا روزنامہ یا ٹی وی چینل نہیں‘جہاںکالم نگاروں،رپورٹر حضرات اور اینکر پرسن نے تھانہ کلچر اور پولیس گردی پربحث مباحثہ اور تجاویزنہ دی ہوں۔اِن پروگراموں میں مدعو کیے گئے مہمان تھانہ کلچر اور پولیس گردی کو جَڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے اقدامات اور دعووں سے پروگرام کے (40منٹ)دورانیہ کو گلو خلاصی کراتے ہیں اور اِس بات پر ہی خوش ہو جاتے ہیں کہ انھوں نے کامیاب انٹرویو دے کر اینکرپرسن(میزبان) کو سَر کرلیا،لیکن آج تک تھانہ کلچر بَدل سکا اور نہ ہی پولیس کا نارواسلوک(پولیس گردی)۔
اَب تویہ تھانہ کلچر اور پولیس گردی ملکی سطح پرثقافتی ورثہ اور پہچان بن چکی ہے،جس میں غنڈہ گردی،قبضہ مافیااور دیگر جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی یا بلاواسطہ پشت پناہی کرنا، حق دار کو ناحق گالیاں اور نازیبا الفاظ کا استعمال شامل ہے۔راقم اِن محافظوں کے منہ سے یہ خرافات اور بے ہودہ زبان کا استعمال وغیرہ زمانہ طالبِ علمی سے سماعت کرتا رہاہے،لیکن چند روز قبل ایک ایساہی واقعہ راقم اور اہلِ خانہ کے ساتھ پیش آیا،”جَب خود پہ بیتتی ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ کیا بھاؤہے!“۔کچھ ایساہی ہوا۔۔۔کیوں کہ مَیں مختلف اخبارات ،نیوز ویب سائیٹس پر کالم اور فیچر لکھتا ہوں،اس لیے قارئین کو صِرف یہ بتانا مقصود ہے کہ تھانہ کلچر اور پولیس گردی ختم کرتے کرتے یہ حکومت بھی مدّت پوری کر چلی،جج حضرات فیصلے سناتے سناتے ریٹائرڈ ہو جاتے ہیں،مدعی اور حق دار افراد اپنامسئلہ،مدعا لے کر کورٹ کچہریوں میں پٹیشن وغیرہ دائر کرتے کرتے زندگی کی60ویں سالگرہ مناتے ہیں،اور ہم جیسے لوگ جہادباالقلم سے اِن چیرہ دستیوں کو درست کرنے کی کوشش میں وقت صَرف کرتے ہیں،جب کہ پولیس(جو لائن آرڈر کی درستگی کی بجائے ایک مافیاکا روپ دھار چکی ہے)اپنی دہاڑی بنانے کے عمل میں دِن رات کوشاں رہتی ہے۔قانون کا یہ بے لگام اِرتقائی سفررواں دواں رہتا ہے اور دوسری طرف غنڈہ عناصر،قبضہ مافیاحضرات ساز باز کرتے ہوئے اپنی دنیا سنوارنے اور بے گناہوں کی دنیا اُجاڑنے میں مصروف رہتے ہیں۔
اِن قبضہ مافیاعناصر کے ایسا کرنے میں اِن کی معاونت کون کرتا ہے؟یہ بتانا اس لیے ضروری نہیں کیوں کہ یہ حقیقت آپ بھی اچھی طرح سمجھتے اور جانتے ہیں،لیکن اِن معاونین کے علاوہ قصور کہیں پہ ہمارا(عوام کا) بھی ہے،کیوںکہ ہم خاموش تماشائی بنے اس لیے چُپ سادھے رہتے ہیں کہ یہ ”صِرف اُس کے ساتھ ہی تو ہو رہا ہے“۔یہ خاموشی بھی تو اِن تخریبی عناصر کو حوصلہ دیتی ہے۔مَیں یہ واقعہ قارئین اور اربابِ اختیارکے عِلم میں اِس لیے بھی لاناچاہتا ہوں کہ اِن کے افسرانِ بالا کو اندازہ ہوجائے کہ اِن کی ”چَھتر چھائیہ“میں تھانے دار حضرات کیسے بے گناہوں اور مدعیوں کو زدوکوب کرتے ہیں اور کم اَز کم آئیندہ کے لیے ہی پولیس اور قبضہ مافیا عناصر کوبھی تنبیہ ہو جائے :۔
راقم کے گھر سے ملحقہ پلاٹ پر کچھ قبضہ مافیا(بظاہر شریف)افرادقابض ہونے کے خواہاں ہیں،عدالتِ عالیہ(دیوانی) میں اِس کیس کی شنوائی عرصہ تین سال سے ہو رہی ہے۔عدالتی کاروائی سے ہم لوگ مطمئن تھے،راقم کے اہلِ خانہ نے عدالتِ عالیہ کومکمل ثبوت Stayاورمتعلقہ کاغذات فراہم کیے،جس کے باعث عدالتی کاروائی کے دوران مخالفین کا
خارج ہو گیا،اوراُن پر توہینِ عدالت کی شِک بھی لگ گئی لیکن مخالفین قانونی پیچیدگیوںسے بچتے بچاتے بارہا پولیس کو فریق کی حیثیت سے شامل کرنے کی تگ ودو میں لگے رہے۔ چند ماہ قبل عدالت نے اِس معاملے کے حَل کے لیے کمیشن بھیجا۔جس نے دونوں فریقین کے دلائل اور موقع کا معائنہ کرکے حقائق پر مبنی رپورٹ عدالت میں پیش کی،جس سے عدالت کو اِس معاملے میں مزید کنفرمیشن ہوگئی۔مگر جب مخالفین کواِس تمام کاروائی سے مستقبل قریب میں اُن کے خلاف ایکشن ہوتا دکھائی دیا تو اِن قبضہ مافیاعناصر نے عدالت کا وقت ضایع کرنے اور دوسرے اوچھے ہتھکنڈے اختیارکیے۔یہ حضرات عدالت کی دی گئی تواریخ پرحاضر نہ ہوتے۔جس سے کیس نے مزید طول پکڑا۔دوسرا طریقہ جو اِن قبضہ مافیا اور ڈرگ مافیا نے اختیار کیا وہ راقم اور اہلِ خانہ پرغلط اور بے بنیاد الزامات لگا کر پولیس کے ذریعےہراساں کرنا شروع کردیا،تاکہ اِس کیس کا فیصلہ عدالت سے باہر پولیس کے روایتی” مُک مُکاؤکے ذریعے ممکن ہوسکے،اِس سلسلے میں مخالفین نے اپنے گھر کی دیوار مرمّت کرنے کے بہانے راقم کے پلاٹ کو عارضی طور پر لینے کے لیے ہمارے خلاف ایک جھوٹی اور بے بنیادالزمات پر مبنی درخواست پولیس کو دی۔جَب اِس سے بھی چارہ کارگر نہ ہوا تو اِن حضرات نے پولیس اسٹیشن میں ڈرانے دھمکانے کا انداز اختیار کیااور راقم سے بھی نازیبااوربَداخلاق زبان کااستعمال کیا۔اِس موقع پر راقم کے والدگرامی (جو دِل کے مریض ہیں)نے حق بجانب ہونے کے باعث پولیس کو تنبیہ کی کہ عدالت میں زیرِسماعت کیس کو پولیس سٹیشن میں حَل نہیں کیا جاسکتا،اِس تلخ کلامی کے بعدپولیس کے”محترم سَب انسپکٹر“نے اُن قبضہ اورڈرگ مافیاافرادکے روبرومیرے والد گرامی اور مجھ کوحوالات کی ہوا کھانے کی دعوت دی،یہ سَب کچھ میری موجودگی میں وقوع پزیر ہوا،جس پر میری مداخلت کرنے اورگالیاں سننے کی سَکت جواب دے گئی،اِس تمام واقعے میں مخالفین کی ٹولی نازیبا اور بے ہودہ گالیوں کا استعمال نہایت نپے تلے انداز سے کرنے میں پولیس کی برابر کی شریک رہی۔اسی اثناءمیں میرے والد گرامی کو اینجائنا کی دَرد ہونے لگی،بالآخر معاملہ عارضی طور پر دَب گیااور ایک بار پھر اُن عناصر کو دندناتے پھرنے کا استحقاق حاصل ہوگیا۔
اِس تمام واقعے نے پولیس کے چند افراد کی غنڈہ اور قبضہ مافیا عناصر کو پشت پناہی کرنے کی کئی گرہیں کھول دیں،ایک طرف پولیس کہتی ہے کہ عدالت میں زیرِ سماعت کیس کے کسی بھی معاملے میں پولیس بولنے سے قاصر ہے‘جب تک عدالت حکم نہ دے۔جب کہ دوسری طرف پولیس اِن عناصر کے ساتھ ایک فریق کی حیثیت اختیار کرکے ایک طرح سے عدالت کامذاق اُڑانے کی مرتکب ہو تی ہے۔
اِس واقعے کے بعد راقم کو عِلم ہوا کہ شریف اور حق دار انسان پولیس سٹیشن جانے سے کیوں کتراتا ہے، کیوں کہ اُسے علم ہوتا ہے کہ جتنا سرمایہ یا جائداد اُس کے پاس موجودہے کہیں اُس سے بھی ہاتھ دھونے پڑ جائیں۔
٭   قارئین اور اربابِ اختیار کو اِس تمام واقعے سے آگاہ کرنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ جب ایک کیس عدالت میں فیصلے کے قریب ہے تو عدالت سے باہر زدو کوب یاہراساں کرکے معاملات حَل کرنے کا کیا جواز ہے؟
٭   پولیس کی کارکردگی کوبڑھانااور رشوت ستانی کو ختم کرنے کے لیے وزیرِ اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے پولیس کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ اِس لیے کیاتھا کہ یہ حق دارسے اُس کا حق چھینے اور غنڈوں ،قبضہ مافیوںکو حوصلہ دیں!!!
راقم کی چیف جسٹس آف سپریم کورٹ ،چیف جسٹس آف ہائی کورٹ،وزیرِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اور پولیس کے کسی ایمان دار اور فرض شناس افسر سے اپیل ہے کہ خدارا اِس معاملے میں راقم اور اہلِ خانہ کی مدد نہ سہی تو کم از کم عدالتی معاملات میں مداخلت سے پولیس اوراُن قبضہ مافیا کو روکا جائے اور تحفظ فراہم کیا جائے۔۔

تحریر: رحمان محمود خان
Feedback:peghaamnews@gmail.com

http://peghaam.blogspot.com/
http://article.urduhome.net/2011/08/01/rehman/ 
http://www.urdusky.com
http://hamariweb.com/articles/article.aspx?id=15095
http://zeeshannews.com/columns/rehman/8.htm
In India:  http://www.khwajaekramonline.com/blog/?p=1834


....٭٭٭....

جمعرات، 14 جولائی، 2011

پاکستان میں گرینڈ الائینس

0 comments

پاکستان میں گرینڈ الائینس کا تاریخی تناظر
تحریر:رحمان محمود خان
توجہ طلب بات ہے!
پاکستان کے تمام ادارے،انتظامیہ اور سیاسی جماعتیں ایک افراتفری کے عالم میں ہیں،ہرادارے میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی مسابقت چل رہی ہے۔ریاستی اداروں سمیت پرائیویٹ سیکٹر اور ملٹی نیشنل کمپنیز بیان بازی اور ذاتی فنڈ ریزنگ کے چکر میں ہیں۔جس کی بدولت اِالاّماشاءاللہ ہماری سیاسی جماعتیں اپنی دکان داری چمکانے میں تَن،مَن،دَھن ایک کیے ہوئے ہیں،جس کاواضح حاصل یہ ہے کہ ان تمام چیزوں میں بھلائی اور اچھائی صِرف ذاتی ہے اجتماعی نہیں اور جس ملک کے ریاستی ادارے عوام کے اجتماعی مفادکو مدِّنظر رکھنامتروک کردیں اورصرف اپنے بنک بیلنس کوترجیح دینااوّلین نصب العین سمجھ لیں‘تواُس ملک کا حال”پاکستان“جیسا ہی ہوگا،جہاں اصلاحِ احوال نام کی چیز ناپید ہوچکی ہے۔اداروں کی اصلاح اس صورت میں ہی ممکن ہے کہ گُڈگورننس کے نام لیواوں کو کم از کم اس بات کا ادراک ہو جائے کہ عوام کو ریلیف دینے سے ہی یہ سب ممکن ہے،لیکن افسوس یہاں توگُڈ گورننس ہے ہی ان کے ذاتی اور پارٹی مفاد کے لیے۔۔۔۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اکثر یہ ہوتا آیا ہے کہ جب ایک سیاسی جماعت کے ہاتھ کچھ نہ آیا یا بہت تھوڑا آیاتواس جماعت کے سرکردہ رکن نے باقی تھکی ہاری جماعتوں کے سربراہان کو اکٹھاکیا،چند مفادی باتوں کو عوام کے مفادکے روپ میں ڈھال کر ایک اتّحاد بنا لیا اور اس کا نام ”گرینڈ الائینس“ رکھ دیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسے دھڑے حکومت کو توڑتے توڑتے خود بھی ا،ب،ج جیسے دھڑوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں،اور آخر میں حروفِ تہجّی کے علاوہ کچھ نہیں بچتا۔پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسے کئی گرینڈ الائینس اپنی موت آپ مرتے رہے ہیں۔
اَب ایک نیاگرینڈالائینس بننے کی طرف رواں دواں ہے جس کی بنیادبدھ6جولائی کومسلم لیگ (ن)اور ایم کیو ایم نے رکھی،اس سے ملکی سیاست میں ایک نئی ہلچل اور سیاسی حلقوں میں کشیدگی کے بادل اُمڈ آئے ہیں اور چند روز قبل یہ بادل سندھ کے سینئر صوبائی وزیر ذوالفقارمرزاکی صورت میں گرج برس گئے ہیں۔اب اس گرینڈالائینس کے بارے پاکستان پیپلز پارٹی درست بتا سکتی ہے کہ آیا یہ گرینڈالائینس ہوگا یا گرائینڈ الائینس۔۔۔۔
راقم کو سابقہ اخبارات کی دھول اُڑانے پر معلوم ہوا کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسے گرینڈالائینس ہوتے آئے ہیں۔قصّہ یوں ہے:
(1)
1970ع کے بعدجب ملک میں سیاسی استحکام آنے لگا، ترقی کا پہیہ چلنے لگا،معاشرے میں برداشت اور جمہوری روایات قدم جمانے ہی لگی تھیں کہ 1977 ع کے انتخابی نتائج کو جواز بنا کر پاکستان عوامی اتحاد (پی این اے) کی شکل میں ایک گرینڈ الائنس وجود میں آیا‘جمہوریت کی بساط لپیٹنے کے لیے ملک کی نو جماعتیں اکٹھی ہوئیں،اُن دنوںحکومت اور پاکستان عوامی اتحاد (پی این اے) کی محاذ آرائی عروج پر تھی۔اس الائینس میں مولانا مفتی محمود اور مولانا مودودی بھی شامل رہے۔ذوالفقار علی بھٹوکے پاکستان عوامی اتحاد (پی این اے)کے مذاکرات کامیاب ہو نے ہی والے تھے،حکومت اور گرینڈ الائینس کے مابین معاہدے پر دستخط ہونے کے قریب تھے کہ4جولائی 1977ع کی شب جنرل ضیاءالحق نے اقتدار پر قبضہ کر لیااور گرینڈ الائینس (اتحاد) میں شامل تمام جماعتیں مارشل لاءکی نوتعمیر کردہ حکومت میں شراکت دار بن گئیں۔
(2)
آمرجنرل ضیاءالحق کے خلاف تحریک بحالی جمہوریت، ایم آر ڈی، کے نام سے ایک اور گرینڈ الائینس وجود میں آیا۔ اس الائینس کی خوبصورتی یہ تھی کہ اس میں پاکستان عوامی اتحاد (پی این اے)کی تحریک چلانے والے نواب زادہ نصر اللہ،ائیر مارشل اصغر خان، عبدالولی خان اور رسول بخش نمایاں تھے، تا ہم اس اتحاد کی مرکزی نمایندگی کم عمربے نظیر بھٹوکے حصّے آئی،دلچسپ امر ہے کہ وہی لوگ جو ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف تھے،آج اس کی بیٹی کی تقلید میں اکھٹے تھے۔لیکن اس الائینس نے پیپلز پارٹی کو بہت جانی نقصان پہنچایا۔پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان نیشنل پارٹی(پی این اے) کے کارکنان کو قیادت سمیت زیادتیوں کا نشانہ بنایا گیا۔
(3)
1998ع بنی نوع ِانسانی ع کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف دیگر مخالفین نے ایک اور موثر گرینڈالائینس بنایا۔جس میں مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم، ائیر مارشل اصغر خان اور محمد ان جونیجو شامل تھے۔ انتخابات میں اِس گرینڈ الائینس کو عبرت ناک شکست کی ہزیمت اٹھانا پڑی اور اس کے محض دو امیدوار جنرل (ر) انصاری اور ڈاکٹر شیر افگن خان نیازی کامیاب ہوسکے۔
(4)
1998ع میں پیپلزپارٹی کے مخالفین کے لیے بے نظیر بھٹو کا وزیراعظم بننا ناقابل برداشت تھا، جس کے نتیجے میں محاذ آرائی اور سیاسی کشیدگی کی فضا قائم کی گئی۔ایک بار پھرسازشوںکاجال انتہائی رازداری سے پاکستان کی پہلی خاتون وزیرِاعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتمادکی صورت میں سامنے آیا،اِس بارغلام مصطفےٰ جتوئی کی قیادت میں گرینڈ الائنس وجود میں آیالیکن تحریک عدم اعتمادناکام ہوئی مگر کچھ عرصہ بعداس وقت کے صَدرغلام اسحٰق خان مرحوم نے بے نظیر حکومت کو چلتا کیا۔
(5)
پاکستان کی سیاست میں ہارس ٹریڈنگ کا عنصر اِس دور سے بخوبی ملتا ہے۔1990 ع کی دہائی میں جو رسّا کشی پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی میں ہوئی،وہ کسی بھی شخص سے ڈھکی چھپی نہیں۔1990 ع کے انتخابات میں بے نظیر بھٹو اور پاکستان پیپلزپارٹی کو برسرِاقتدار آنے سے روکنے کے لیے ایک اور گرینڈ الائینس تشکیل دیا گیا جس کا نام اسلامی جمہوری اتِّحاد(آئی جے آئی)رکھا گیا،جس کے روحِ رواں آئی ایس آئی کے جنرل ریٹائرڈ حمید گُل تھے۔اسی اثنا میں محترمہ بے نظیر بھٹو، نواب زادہ نصر اللہ مرحوم، ائیر مارشل اصغر خان، ڈاکٹر طاہر القادری نے مل کر پاکستان ڈیمو کریٹک الائنس (پی ڈی اے) کے نام سے گرینڈ الائینس بناڈالا۔
(6)
1990ع کے انتخابات کے نتیجے میں نواز شریف حکومت کے خلاف ایک اور سیاسی اتحاد قائم کیا گیا،جس میں مرحوم نواب زادہ نصر اللہ خان، بے نظیر بھٹو ، غلام مصطفےٰ جتوئی، مولانا کوثر نیازی بھی شامل تھے۔
سیاسی شورشیں پیدا ہوتی رہیں ،گرینڈالائینس بنتے،ٹوٹتے اور بکھرتے رہے،اورایسے خود ساختہ اتِّحاداپنی موت آپ ختم ہوتے رہے۔
(7)
محترمہ بے نظیربھٹو اور نواز شریف کے اَدوارکی آنکھ مچولی کے بعد ایک اور آمر(پرویز مشَّرف) کا دور آیا جس میں اس وقت کی اپوزیشن نے مرحوم نواب زادہ نصراللہ خان کی سرپرستی میں ایک اور گرینڈ الائینس”اے آر ڈی“کے نام سے بنایا۔جس میں ملک گیر تحریک چلائی گئی اور بالاخر”باری باری“کی سیاست رنگ لائی،پرویز مشَّرف نے محض اپنی باری پوری کرکے اقتدار کے مزے لوٹنے کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کو حکومت سونپ کر پردیس کی راہ لی۔
(8)
2008ع کے انتخابات کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی،پاکستان مسلم لیگ(ن) اورمہاجر قومی موومنٹ(ایم کیو ایم)اور دیگر جماعتوں کے درمیان ”کچھ دو،کچھ لو“کے مصداق مفاہمتی ڈیل طے پائی۔
لیکن اَب کی بار2011ع میں پاکستان پیپلز پارٹی،پاکستان مسلم لیگ(ق)کے مابین مفاہمتی اور اشتراکی سلسلے کا آغاز ہو اہے۔جب کہ پاکستان مسلم لیگ(ن) اورمہاجر قومی موومنٹ(ایم کیو ایم)کے مابین ایک بڑے سیاسی اتِّحادکاآغاز ہواہے۔
جس کا نتیجہ تاریخ دان کورے کاغذ پر ثبت کرنے کے لیے بے چین ہیں۔اِس بارگرینڈالائینس میں شامل جماعتوںمیں پاکستان مسلم لیگ(ن) اورمہاجر قومی موومنٹ(ایم کیو ایم)،جماعتِ اسلامی،جمیعت علمائِ اِسلام،سنّی اتِّحاد کونسل،تحریکِ انصاف،بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں اور تحریک صوبہ ہزارہ شامل ہیں۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ جو جماعت بارہا یہ کہتی رہی کہ آمر کی گود میں بیٹھنے والوں سے دوستی نہیں کی جائے گی،آج وہی جماعت عوام کو بے وقوف بناتے ہوئے اپنے الُّو سیدھے کرنے کے ساتھ ساتھ آئیندہ انتخابات کے لیے راہ ہموار کرہی ہیں۔اَب دیکھنا یہ ہے کہ یہ گرینڈ الائینس محض اپوزیشن کی قسمتیں بدلتا ہے یا عوام کی۔۔۔۔اگر اِس الائینس سے عوام کو ریلیف ملتا ہے،تو یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کاایک عظیم کارنامہ ہوگالیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔۔۔!!!!

تحریر: رحمان محمود خان
Feedback:peghaamnews@gmail.com
More Links:

....٭٭٭....

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *