پیر، 25 اپریل، 2011

کِردار ہمیشہ زندہ رہتے ہیں

1 comments


کِردارمعین اختر۔۔۔۔فیچر
کِردار ہمیشہ زندہ رہتے ہیں
تحریر:رحمان محمود خان
جب روح قفسِ نفسی سے پرواز کرکے خالقِ حقیقی سے وصال پاتی ہے تو مٹی کا یہ کھلونا (جسم)خاک نشین ہو کر قدرت کے پردوں میں غائب ہو جاتاہے،جسم مَر جاتا ہے اور ارشادِباری تعالیٰ کے مطابق ہرنفس موت کا ذائقہ چکھتا ہے لیکن کردارہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ہر اچھے انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ زندگی کی سٹیج پر کوئی اہم کردار اور عمدہ کرِدار ادا کرے اور اپنے فَن کو دوسروں تک پہنچائے۔کچھ ایسے انسان بھی قدرت نے اس روئے ارض پر متعارف کروائے جن میں فطرتاًپوشیدہ فَن کار ہوتا ہے اور ایسے انسان جب عروج کی منازل طے کرتے ہیں تو عروج کو بھی ان پر فخر ہوتا ہے اور ایسے کِردار جب زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں تو کئی دوسری زندگیاں بھی غمزدہ اور افسردہ ہو جاتی ہیں،ایسا ہی اِک کِردار تمغہ حسنِ کارکردگی،ستارہ امتیاز اور بے شمار پرائڈ آف پرفارمنس کا حامِل فَن کار ”معین اختر “ کے نام سے جانا اور خوب پہچانا جاتا تھا،جس کا بہترین ایوارڈ ان کے جنازے
میں شریک افرادکی شکل میں تھا۔
کون ہے جو تقدیر سے پوچھے کہ کیوں مر جاتے ہیں ایسے لوگ
جن کی باتیں ، جن کی یادیں بن جاتی ہیں دِل کا روگ
معین اخترجس کا کیرئیر تقریباً 44برس کی فَن کارانہ صلاحیتوں کا حامل تھا،اس تمام عرصے میں ایک بار بھی خزاںکا موسم نہ دیکھا،ہر بار اور ہر کِردار میں اپنے مداحوں کا دِل جیتا۔بین الاقوامی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔6ستمبر1966ع کاوہ دِن جس روز معین اختر نے اپنے فَن کا آغاز کیا،یہ وہ پروگرام تھا جو جنگِ ستمبر1965عکے ایک سال مکمل ہونے پر یومِ دفاع کے موقع پر پیش کیا گیا،جِس میں معین اختر نے میزبانی کرتے ہوئے ایسی یادگار پرفارمنس دی جو مرتے دَم تک اس فَن کار کا خاصہ رہی۔اِس پرفارمنس کے بعد اردو زبان جاننے والا ہرشخص معین اخترکے نام سے واقف ہوتا چلا گیا،فن کی دنیا میں مزاح سے لے کرطَنز اورپیروڈی سے لے کر گائیکی تک معین اخترکی اداکاری اور صَدا کاری کے جوہردہائیوں تک ناظرین وحاضرین کومحظوظ 
کرتے رہے،معین اختر کی زندگی کا کچھ احوال گوش گزار ہے۔۔۔
معین اختر 24دسمبر 1950ع کو کراچی میں پیدا ہوئے تھے۔پاکستان ٹیلی ویژن کی تاریخ معین اخترکے بغیرنامکمل ہے،پاکستان میں ڈرامہ، اسٹیج اور مزاحیہ اداکاری کے بہت سے نئے پہلومعین اخترکی فَن کاری میں نمایاں ہوئے،بالخصوص انورمقصود اور بشریٰ انصاری کے ساتھ اشتراک میں کئی یادگارمثالی پروگرامز اورڈرامے کیے۔ فَن کاروں کی نئی نسل کے لیے معین اخترہمیشہ مشعلِ راہ ثابت ہوئے۔ معین اختربے مثال صلاحیتوں کے مالک تھے،انہیں انگریزی، بنگالی، سندھی، پنجابی، میمنی، پشتو، گجراتی سمیت متعدد زبانوں پرعبور حاصل تھا۔اُردوفَن کی دنیا میں معین اخترایک اَن مِٹ نام ہے۔معین اختر کو ٹی وی پر امیر امام نے اپنی سیریل "انتظار فرمایئے" کے ذریعہ متعارف کرایا جس میں ان کے کردار ”راجہ پہلوان“ کو بے پناہ شہرت ملی۔ معین اخترنے ”روزی کانسوانی کرداریادگاربنادیا،اس ڈرامے میں معین اختر نے دوشیزہ کاکردار بڑے کمال مہارت سے انجام دیا۔ڈرامہ سیریل سَچ مُچ میں ”سیٹھ منجور(منظور) دانہ والا“کا کِردار سراہا گیا۔اس کے علاوہ اسٹیج پر بے شمار ڈرامے کیے۔”بکرا قسطوں پر “اور ”بڈھا گھرپر ہے“ میں اپنے ساتھی اداکار عمر شریف کے ساتھ یادگار شوز کیے ۔اِس کے علاوہ متعدد شوز،اسٹوڈیوڈھائی، اسٹوڈیو پونے تین، اورلوز ٹاک جیسے شاندار مزاحیہ شوز بھی بہت پسند کےے گئے، ٹیلی ویژن سیریل روزی، مکان نمبر فورٹی سیون ،فیملی نائنٹی تھری،پائلٹ یعقوب،بھائی سموسہ کھائیے،ڈالرمین، لانگ پلے ”ہاف پلیٹ“، عید ٹرین، بندرروڈ سے کیماڑی، سَچ مُچ اورآنگن ٹیڑھا یادگار ڈرامے ہیں۔معین اختر نے انور مقصو د کے ساتھ مشہور مزاحیہ ٹاک شو ”لووز ٹاک “کی چارسو سے زائد اقساط میں مختلف گیٹ اَپ کیے۔اس پروگرام کو انور مقصو د نے ہی تحریر کیا جب کہ میزبان بھی انور مقصود ہی تھے۔معین اختر نے مختلف فَن کاروں کے ساتھ کام کیا مگر جو کیمسٹری اور ہم آہنگی اُن کی انور مقصو د اور بشریٰ انصاری کے ساتھ رہی وہ 
بےمثال ہے۔انورمقصود کی مزاحیہ تحریرکا خیال آتے ہی تصورمیں معین اخترکے مختلف بہروپ اُبھرتے ہیں ۔
معین اختر پاکستان کی شوبز کی وہ واحد شخصیت تھے جنھوںنے ایک ایسے شو کی میزبانی کے فرائض انجام دیے‘ جس میں بطور میزبان معین اختر نےعُمّان کے شاہ حسین اورگیمبیا کے وزیر اعظم داؤ ٰدی الجوزانے، صدرضیاالحق، وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو، جنرل یحیی خان اور غلام اسحاق خان جیسے سیاستدانوں کے انٹرویوز کیے۔
معین اختر ملک میں ہی نہیں بَل کہ بیرون ملک بھی اپنے فَن کا مظاہرہ کیا۔معین اختر کو”نقّالی“ میں خاص مہارت حاصل تھی،مشہور اداکاروں ،سیاست دانوں کی بڑی مہارت سے نقل کیا کرتے۔ پاکستان کے نامور اداکار اور لیجنڈ محمد علی،وحید مراد ،مہدی حسن اور احمد رشدی کے علاوہ دیگر اداکاروں کی”نقّالی“ بڑے خوبصورت انداز میں کرتے۔
معین اختر نے گلوکاری میں بھی اپنے فن کا لوہا منوایا،ان کے گانوں کا ایک البم ”تیرا دل بھی یوں ہی تڑپے “بھی ریلیز ہوا جس میں انہوں نے اپنی آواز کا جادو جگایا۔معین اختر نے فلم ”تاج دار“ اور ”مسٹرکے ٹو“میں اپنے فَن کا مظاہرہ کیا۔
معین اخترکو ان خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے ”پرائڈ آف پرفارمنس “ اور”ستارہ امتیاز “سے نوازا گیا۔اس کے علاوہ دیگر ایوارڈز جنِ میں نگار ایوارڈ،کریٹک ایوارڈ،گرایجویٹ ایوارڈ،مصّوِر ایوارڈ،عوامی ایوارڈ اور پاکستان ٹیلی ویژن کی جانب سے چھے ایوارڈز سے نوازا گیا۔
معین اختر طویل عرصے سے دل کے عارضہ کو اپنے سینے میں چھپائے ہوئے تھے ،کچھ برس قبل اُن کا بائی پاس آپریشن بھی ہوا۔گزشتہ دِنوںسینے میں شدید درد کی شکایت پر انھیں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیوویسکولر ڈیزیز لایا گیالیکن وہ جان بَر نہ ہوسکے۔
معین اختر کروڑوں دلوں کی دھڑکن تھے وہ جہاں جاتے میلہ لگ جاتا۔معین اختر نے 61سالہ زندگی میں سے 45برس اپنے فن کی خدمت کرتے گزارے،شوبز کے تمام شعبوں ڈرامہ، اسٹیج ، فلم،گلوکاری اورکمپیئرنگ میں اپنا لوہا منوایا۔مزاح کی صنف کو سنجیدگی کا اسلوب بخشا، پیروڈی کرنے میں ان کووہ ملکہ حاصل تھا، جس کی کوئی فنکار تمنا ہی کرسکتا تھا۔ سنجیدہ اداکاری ہویاکامیڈی،انہوں نے جو کردار کیااس پر اپنی چھاپ لگاچھوڑی۔اُن کا نام ہی ڈراموں اور اسٹیج شوز کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتاتھا۔ وہ اپنی ذات میں ایک دَرس گاہ تھے، اِن جیسی شخصیات کے لیےشاعر نے کہا ہے کہ
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
 معین اختر کی بنیادی پہچان اور وجہ مقبولیت بھی ان کی منفرد کمپیئرنگ تھی۔ وہ بہت شائستہ انداز میں شگفتہ گفتگو کرتے تھے اور برجستگی سے بات کرتے تھے۔ ٹی وی پروڈیوسر قاسم جلالی کی سیریل ”یس سر نو سر“ سے بھی ان کی شہرت میں اضافہ ہوا۔ محسن علی اور سائرہ کاظمی کے ڈراموں اور سیریلز میں بھی معین اختر نے مختلف اور متاثرکن کردار ادا کیے۔ تاجدار عادل کے پروگرام” معین اخترشو“کی کمپیئرنگ بھی کی۔ تھیٹر میں بھی وہ اپنی بھر پور پرفارمنس سے شائقین سے داد وصول کرتے تھے۔اُن کا کامیاب ترین اسٹیج ڈرامہ"بچاؤ معین اختر" تھا ،اِس کے علاوہ بھی سید فرقان حیدر کے متعدد کھیل کیے۔ معین اختر نے اپنے 45سالہ فنی کیریئر میں بے شمارسٹیج ڈراموں کے علاوہ ٹی وی سیریل، ٹی وی شوز میں کام کیا۔ انہوں نے ریڈیو، اسٹیج، ٹی وی اور فلم سمیت تمام شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔
اداکاری کے ساتھ ساتھ انہوں نے ہدایتکار اور پروڈیوسر کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ انھوں نے متعدد ٹی وی ڈراموں کے علاوہ فلم کی ڈائریکشن بھی کی۔ ملک اور بیرون ملک ہونے والی تقریبات کے منتظمین کی خواہش پر معین اختر کمپیئرنگ کے لیےوہاں جاتے تھے۔ وہ لوگوں کے دلوں پر راج کرنے کا فَن جانتے تھے۔ برصغیر کے لیجنڈ اداکار دلیپ کمار کی خواہش پر معین اختر کو اُن کی سالگرہ پر میزبانی کے لیے خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا۔عوام کے ساتھ ساتھ حکمرانوں میں یحییٰ خان، غلام اسحاق خان، ذوالفقار علی بھٹو، پرویز مشرف، نوازشریف، فنکاروں میں دلیپ کمار، راج ببر، انیل کپور، سلمیٰ آغا، لتا منگیشکر، دیو آنند اور دھرمیندر سمیت بڑی تعداد میں ملکی و غیر ملکی فنکار ان کے مداح تھے۔اُن کے انتقال پر ان کےشوبز کے کئی ساتھیوں نے دِلی افسوس کا اظہار کیا۔اداکارقوی خان نےانھیں لیجنڈ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اُن کا خلاءشاید کبھی پُرنہ ہوسکے۔
معین اخترکی ناگہانی موت پر صدر آصف علی زرداری، وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے شدید رنج و غم کا اظہار کیا ہے جب کہ پاکستانی فلم انڈسٹری ، ٹی وی اور سٹیج سوگ میں ڈوب گئے۔ مزاحیہ اداکار عمر شریف نے معین اختر کی وفات پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ معین اختر جیسا اداکار دوبارہ پیدا نہیں ہوگا، ان کی وفات ناقابل برداشت خبر ہے، یقین نہیں آتا کہ وہ دنیا سے چل بسے۔ انھوں نے کہا کہ بے شمارفَن کاروں نے معین اختر کے سائے میں ترقی حاصل کی ، کامیڈی میں جتنی جدت معین اختر نے پیدا کی اتنی کوئی نہیں کرسکا۔
وزیراعظم نے اپنے تعزیتی پیغام میں مرحوم کے اہل خانہ سے ہمدردی اورتعزیت کااظہارکرتے ہوئے مرحوم کی مغفرت کے لیےدعا کی۔ انہوں نے کہاکہ معین اخترہمارے ملک کے ہمہ وقت ٹی وی آرٹسٹ تھے جنہوں نے اپنی اداکاری کے ذریعے جذبہ حب الوطنی کواجاگرکیا۔ وزیراعظم نے کہاکہ معین اخترکے انتقال سے ملک ایک اعلیٰ پائے کے اداکارسے محروم ہوگیااوراُن کے انتقال سے پیداہونیوالاخلاءتادیر پرنہیں ہوسکے گا۔ ملک وقوم کے لیےاُن کی قابل قدرخدمات کو ہمیشہ یادرکھاجائیگا۔ وزیراعلیٰ پنجاب محمدشہبازشریف نے تعزیتی بیان میں کہاکہ معین اختراپنی ذات میں انجمن تھے۔ انھوںنے کہا کہ معین اختربے پناہ صلاحیتوں کے مالک تھے۔ وہ اداکاری‘ کمپیئرنگ اور کامیڈی کے فَن میں یکتاتھے۔انھوں نے کہا کہ معین اخترکے انتقال سے وطن عزیز ایک مایہ نازفَن کارسے محروم ہوگیاہے۔متحدہ قومی موومنٹ کے قائدالطاف حسین نے معین اخترکے انتقال پردلی صدمہ اورافسوس کااظہار کیا، ایک بیان میں الطاف حسین نے کہا کہ معین اختر ریڈیو‘ ٹی وی‘ فلم اوراسٹیج کی دنیاکابہت بڑانام تھے۔اُن کاانتقال نہ صرف پوری پاکستانی قومبَل کہ پوری دنیا میں فن کے مداحوں کے لیے ایک بہت بڑاسانحہ ہے۔معین اخترجیسے فَن کارتاریخ میں روزروزپیدانہیں ہوتے۔ گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے معین اختر کے انتقال پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ گورنر نے مرحوم کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ معین اختر ایک نامور فَن کار تھے۔فَن کے شعبے خاص طور پر کامیڈی میں ان کے کردار کو بھلایا نہیں جاسکتا۔گورنر نے مرحوم کی مغفرت اور لواحقین کے لیے َصبرِ جمیل کی دعا کی۔ اداکاروں، سیاستدانوں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے اُن کے انتقال پر گہرے دکھ اور رنج کا اظہار کیا ہے۔
معین اختر کے انتقال کی خبر شوبز میں بھی جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ علمی، سیاسی، ادبی حلقوں میں صدمہ کا اظہار کیا گیا۔فَن کار برادری اُن کے انتقال کی خبر سے سکتے میں آگئی۔
معین اختر ایک بہت نفیس اور ہمدرد انسان تھے۔ اُن کے ساتھ اداکاری کرنا ہر اداکار کی ہمیشہ خواہش رہی۔ یہ ایک ناقابلِ پرداشت صدمہ ہے ،ساری زندگی سب کو خوشیاں دینے اور ہنسانے والا رلا کر چلا گیا، وہ اپنے طرز کا بہت باصلاحیت فَن کار تھا۔ قاسم جلالی ، حیدر امام رضوی،اداکارہ بشریٰ انصاری،اداکار شہزاد رضا، محمد سجاد حیدر، گلوکار ارشد محمود،میوزک ڈائریکٹر محبوب اشرف اور آرگنائزر اختر سلطان، گلوکار سلیم شہزاد، سینئر صوبائی وزیر پیر مظہرالحق، صوبائی وزیر کھیل ڈاکٹر محمد علی شاہ، اصلاح الدین، سمیع اللہ، حنیف خان، حسن سردار، ایڈمنسٹریٹر صدر ٹاؤن مختار حسین، پاکستان فلم اینڈ ٹی وی جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے صدر اطہر جاوید صوفی، سیکریٹری عبدالوسیع قریشی اور دیگر عہدے داران نے بھی معین اختر کے انتقال پر شدید د کھ اور صدمے کا اظہار کیا ہے۔ ممبر سندھ کونسل پی پی پی سہیل سمیع دھلوی، میر ہزارخان بجارانی اور دیگر نے بھی معین اختر کیلئے دکھ کااظہار کیا۔ انجمن ترقی اردو پاکستان کے نائب معتمد اور دائرہ ادب و ثقافت کے چیئرمین پروفیسر اظفر رضوی، پاکستان آرٹس کونسل کے اعزازی سیکریٹری پروفیسر اعجاز احمد فاروقی، فلمساز و ہدایتکار جاوید شیخ،سید سلطان احمد، ایم نسیم، محمد حسیب خان، حاجی غلام محمد خان،عالمگیر شیخ، گل فراز، احمد خان، امین یوسف، سابق ایم پی اے عبدالقدوس اور دیگر نے بھی ان انتقال پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔
معین اختر دنیا بھر کے اردو زبان سمجھنے والے افراد کو غمزدہ کر گئے ہیں ان کے قریبی ساتھی اور معروف اداکار بہروز سبزواری کا کہنا تھا کہ اُن کے خاندان والوں کے لیے تو یہ بہت بڑا دکھ ہے اور یہ ہم سب ساتھیوں کے لیے بھی یہ بہت بڑا دکھ اور المیہ ہے۔ ہم نے بڑا وقت ساتھ گزارا ہے معین اختر بہت خاص شخصیت کے مالک تھے ، دعوتوں میں بہت کم جایا کرتے تھے ان کی اپنی دنیا اپنے کمرے اور کام کی حد تک تھی، وہ ضرورت مند افراد کی خصوصی اعانت کیا کرتے تھے ، بہت سے ساتھی فنکار اس بات کی تائید کریں گے۔
معین اختر کے انتقال پر بولی ووڈ کے معروف مزاحیہ اداکار جانی لیور کا کہنا تھا کہ تمام ہندوستانی فنکاروں کو اس خبر سے صدمہ پہنچا ہے سب کا خیال ہے کہ معین اختر بہت بڑے فَن کار تھے اور ایسے فَن کار بہت کم پیدا ہوتے ہیں یہ برسوں میں پیدا ہونے والے آرٹسٹ تھے یہ میرے لیےفخر کی بات ہے کہ میں معین اختر کو جانتا ہوں اور اپنے کیریئر کا آغاز ان سے متاثر ہو کر ہی کیا ، میرے لیے وہ بہت بڑے شخص ہیں خدا ان کو جنت نصیب کرے ان کا فَنکی دنیا میں بہت بڑا حصّہ ہے۔
معین اختر کے فنّی کیریئر کا مختصر جائزہ
: ٹیلیویژن سیریلز
روزی،ڈالر مین،مکان نمبر 47،ہاف پلیٹ،فیملی93،عید ٹرین،بندر روڈ سے کیماڑی،سَچ مُچ،آنگن ٹیڑھا
ٹیلیویژن شوز:
شوشا،شو ٹائم،سٹوڈیو ڈھائی،سٹوڈیو پونے تین،لوز ٹاک،معین اختر شو
گانے اور البم:
 تیرا دِل بھی یوں ہی تڑپے (البم:تیرا دِل بھی یوں ہی تڑپے)
چھوڑ کے جانے والے    (البم:تیرا دِل بھی یوں ہی تڑپے)
چوٹ جِگر پہ کھائی ہے    (البم:تیرا دِل بھی یوں ہی تڑپے)
رو رو کے دے رہا ہے    (البم:تیرا دِل بھی یوں ہی تڑپے)
دَرد ہی صِرف دِل کو ملا   (البم:تیرا دِل بھی یوں ہی تڑپے)
دِل رو رہا ہے         (البم:تیرا دِل بھی یوں ہی تڑپے)
ہوتے ہیں بے وَفا      (البم:تیرا دِل بھی یوں ہی تڑپے)
معین اختریقینا ایک بڑے اداکار اور صداکار تھے لیکن اس سے کہیں زیادہ وہ ایک اچھے انسان تھے۔ وہ جس شعبے سے وابستہ تھے وہاں انسانی خوبیاں برقرار رکھنا ایک مشکل کام ہے لیکن اپنی خوبیوں کے حوالے سے وہ اپنی زندگی میں بھی نیک نام تھے اور مرنے کے بعد بھی ہر زبان پر ان کا چرچا بھلائی کے ساتھ ہے۔
معین اختر کا جنازہ جنید جمشید پڑھتے ہویے
یہ ایک مسلمان کے لیے جنتی ہونے کی علامت ہے۔ بہت سے لوگ اس بات کے گواہ ہیں کہ وہ بڑی خاموشی کے ساتھ ضرور ت مندوں کی مدد کرتے تھے‘ پیسے سے بھی اور ذاتی تعلقات کے حوالے سے بھی۔ ان کے بارے میں عموماً یہ کہا جاتا تھا کہ وہ ایک مزاحیہ اداکار ہیں لیکن وہ ایک لیجنڈ اور منفرد اداکار تھے۔ انھوں نے تھیٹر‘ فلم‘ ٹی وی ہر جگہ اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا لیکن پھکڑپن اور ابتذال سے دور رہے ورنہ کامیڈین عموماً اِس عیب میں مبتلا ہیں۔معین اختر غمگین اور افسردہ لوگوں کے ہونٹوں پر مسکراہٹیں بکھیرتے رہے۔ اللہ ان کے نیک اعمال کو قبول کرے اوران کی خطاؤں سے درگزر فرمائے۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

تحریر: رحمان محمود خان
....٭٭٭....

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *