بدھ، 29 دسمبر، 2010

تین برائیاں ۔ ۔ ۔ کالم

0 comments
تین برائیاں،تین اچھائیاں
تحریروتحقیق: رحمان محمود خان

        انسان اپنی تخلیق سے لے کر اب تک برائی اور بھلائی یا اچھائیوں کے درمیان جکڑا ہوا ہے اور کبھی کبھار ان سے نکلنے کی سعی بھی کرتا ہے،حقیقت کو مدِنظر رکھیں تو معلوم ہوگاکہ برائیاں اور اچھائیاں انسان کی خود پیدا کردہ ہیں۔اس کا الزام کسی اور کو دینا صرف خود کو فریب دینے کے مترادف ہے۔اکثراوقات برائیوں، بدی اور گناہ کا ذمہ دار شیطان کو ٹھہرایا جاتا ہے لیکن شایدکئی با ر تو وہ بے چارہ دور کھڑا نِت نئے گناہوں اور تکنیکی(ٹیکنیکل)جرائم کو حضرت انسان سے کرتا دیکھ کرمحظوظ ہوتا ہوگا اور ساتھ ہی پیچ وتاب بھی کھاتا ہوگا کہ یہ فعل تو میرے دماغ میں بھی نہیں تھا لیکن پھر بھی اس کا الزام میرے سر ہے۔ایسے جملے ازراہِ مذاق بھی کہے جاتے ہیں،ہاں تو ہم بات کررہے تھے کہ یہ برائیاں انسان کی خود پیدا کردہ ہیں اگر انسان تہیہ کرلے ‘حتیٰ الامکان ان برائیوں سے بچنا ہے اور دوسرے افراد کو بھی بچانا ہے تو یہ عین ممکن ہے۔فی الحال راقم کو اپنی 25سالہ زندگی میں یہ تجربہ ہوا‘جو کہاں تک درست ہے اِس کا اندازہ تو مجھ سے بہتر آپ لگاسکتے ہیں۔برائیاں ،بدی اور گناہوں کا آغاز کہاں سے ہوتا ہے؟اس سوال کا جواب ہر کسی کے اپنے نقطہ نظر سے ہوگا۔مگر اس کاجواب حقیقتاً یہ ہے کہ بدی،گناہ یا برائی کا آغاز سب سے پہلے ”حرص“ سے ہوتا ہے‘حرص (لالچ)ایک ایسی برائی ہے جو دنیا ‘جہان کے مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد میں موجود ہے اور اس کے علاوہ موروثی طور پر سفر بھی کر رہی ہے۔حرص ‘صرف دولت کا لالچ نہیں بلکہ یہ شہرت،عزت،دولت اور مرتبہ و عہدے کا لالچ ہے۔گویا کہ حرص نے انسان کو اپنے ”حسن“ کا گرویدہ بنایا ہوا ہے،یہ حرص مزدور سے لے کر اشرافیہ تک بدرجہ اتم اور درجہ بہ درجہ ‘زیادہ سی زیادہ موجود ہے۔اس کی واضح مثال سیاسی اکابرین کے اثاثہ جات اور سوئس بنک اکاؤنٹ ہیں،جب کہ عام آدمی کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی لگن میں خوشامد اور حق تلفی کرنا شامل ہیں۔قارئین!حرص تو اُن اخلاقِ رزیلہ کا آغاز ہوتی ہے‘اس سے آگے تو برائیاں اور بھی ہیں جیسے خوشامد اور حق تلفی کا ذکر کیا۔
        دوسری برائی جو ہم سب میں موجود تو ہے لیکن اپنی شہرت اور عزت کی بناءپر اس کا برملہ اظہار یا تذکرہ کرنا ناگوار گزرتا ہے،وہ ہے "حسد"۔حسد بھی ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والوں میں سرایت پزیر ہے،اور لطف انگےز بات تو یہ ہے کہ فنونِ لطیفہ سے تعلق رکھنے والے افراد جن میں ادبائ،شعرائ،فنکار وغیرہ وغیرہ ہیں‘ میں تو خصوصاً زیادہ ہی ،جب یہ حضرات کسی تقریب میں ہو تو اس وقت سب کچھ عیاں ہو جاتا ہے،یہاں حاسدین کی وافر کھیپ پنہاں ہے۔حسد میں حرص کا عنصر بھی موجود ہے۔وہ ایسے کہ ایک شخص جس کی بہت شہرت ہو اورکثیر زر و مال ہو تو اس کے دوست احباب کے علاوہ دیگر افراد بھی یہ سوچتے ہیں کہ اتنا کچھ تو میرے پاس بھی ہونا چاہیی۔موخرالذکر یہ نہیں سوچتی کہ اس شخص نے یہ مرتبہ ،مقام کس صورت میں پایا ہے،آیا کہ جائز یا ناجائز!اگر جائز صورت میں نام کمایا تو اس کو اس مقام تک پہنچنے کے لیے کتنی محنت کرنا پڑی۔۔۔لیکن یہاں معا ملہ اس کے بر عکس ہے ،موخرالذکر اشخاص ایسا بہت کم کرتے ہیں اور حرص کرنے لگتے ہیں اور حسد پر اکتفا کرتے ہیں۔اس کی مزےد واضح مثال تےسری برائی کے بعد سمجھ آئے گی۔
        حسد کے بعد جس برائی کو راقم نے درجہ سوم پر رکھا وہ "انتقام" ہے ۔درج بالا سطور کا (اختتامی)انجام”انتقام“پر منتج ہوتا ہے،جب حاسد شخص حرص اور حسد سے ”ترقّی“کرنے لگتا ہے تو وہ انتقام کی طرف قدم بڑھاتا ہے،انتقام کا ایک لازم جزو"ضد" ہے اور ضد انتقام پر اکساتی ہے،وہ اس شخص کے مقام ومرتبہ،شہرت، دولت اور عزت سے ضِد کرتے ہوئے انتقام کی طرف مائل ہوتا ہے اور اگرانتقام اپنے منطقی انجام تک نہ پہنچ سکے تو وہ شخص دوبارہ حرص پر اکتفا کرتے ہوئے مسائل اور الجھنوں کی دلدل میں خود کو پھنسا لیتا ہے۔
        قارئین!حِرص،حَسداور اِنتقام تینوں میں ”ضِد“کے عناصر موجود ہیں،ان تینوں برائیوں سے انسان اَزل سے نبرد آزما ہے اور اَبد تک ایسا ہی ہوگا۔اگر یہ سلسلہ ایسا ہی رہنا ہے تو ایسے میں کیا کرنے کی ضرورت ہے کہ ان سے بچنا ممکن ہو سکے اس کا حل یہ نہیں کہ انسان حرص،حسد اور انتقام کی طرف مائل نہ ہو بلکہ یہ تو ممکن ہی نہیں کہ ان تینوںمنفی اوصافِ رزیلہ سے بچا جا سکے بلکہ اس کا سیدھا اور آسان کلیہ(فارمولا) تو یہ ہی‘ وہ تین اچھائیاں اپنائی جائیں جو اس کا علاج ہوں،جن کا مقصد اور عمل ایک ہو۔وہ تینوں اچھائیاں صرف کام،کام اور کام ہیں۔حیران کن بات یہ ہی ان تینوں اچھائیوں کے سامنے مذکورہ بالا برائیوں کی اوقات اور مرتبے بہت چھوٹے رہ جاتے ہیں۔کام‘ایسی خوبی اوروصف ہے جو ہر برائی اور ہر خامی کو چھپا دیتا ہے،ایک وقت آتا ہے کہ انسانی نفسیات،عادات اور جسمانی کیفیات صرف کام کی عادی ہو جاتی ہیں اور ان برائیوں کو پرورش پانے کی مہلت اور وقت میسر نہیں آتا۔ضرورت اس امر کی ہے انسان خود کو تنہائی میں سمجھائے اور اپنا محاسبہ کرے،اپنی برائیوں میں ان برائیوں کو تلاش کرے اور ان سے جنم لینے والی بقیہ اخلاقِ رزیلہ اور اخلاق سوز اعمال کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کو ختم کرنے کی حتی المقدور سعی کرے ۔اس کا آغاز صرف کام اور مثبت کام سے ہی ممکن ہے۔عین ممکن ہے کہ حالات ،معاشرہ اور ماحول اس کی اجازت نہ دے لیکن جب کام کرنے کی عادت پڑ جائے تو کام خود بخود معاشرے کو اس شخص کے اوصاف کی طرف مائل کرتا ہے،تو یہ برائیاں ہیچ ہو جاتیں ہیں،یہ موجود تو رہتیں ہیں مگر انھیں سر اٹھانے کا موقع نہیں ملتا۔معروف ماہرِنفسیات ،لیکچراراور نوجوان دانشور ڈاکٹر کاشف فراز کا قول ہے”کام کرتے رہنے سے ہو جاتاہے“،اور جب کام کرتے رہنے سے ہو جاتا ہے تو یہ معاشرہ میں جلد یا بدیرخود اپنی جگہ بناتا ہے۔
        اس لیے ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد خصوصاً نوجوانوں کو چاہیے کہ شارٹ کٹ کی بجائے صرف کام اور مثبت کام کی طرف توجہ دیں اور مثبت نتائج اخذ کرنے کی ٹھانیں ، سب کچھ آپ کے سامنے آجائے گا۔
Please Post your precious Comments with your Mobile Number.
.... ٭ ٭ ٭ ....

0 comments:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *