بدھ، 29 دسمبر، 2010

تین برائیاں ۔ ۔ ۔ کالم

0 comments
تین برائیاں،تین اچھائیاں
تحریروتحقیق: رحمان محمود خان

        انسان اپنی تخلیق سے لے کر اب تک برائی اور بھلائی یا اچھائیوں کے درمیان جکڑا ہوا ہے اور کبھی کبھار ان سے نکلنے کی سعی بھی کرتا ہے،حقیقت کو مدِنظر رکھیں تو معلوم ہوگاکہ برائیاں اور اچھائیاں انسان کی خود پیدا کردہ ہیں۔اس کا الزام کسی اور کو دینا صرف خود کو فریب دینے کے مترادف ہے۔اکثراوقات برائیوں، بدی اور گناہ کا ذمہ دار شیطان کو ٹھہرایا جاتا ہے لیکن شایدکئی با ر تو وہ بے چارہ دور کھڑا نِت نئے گناہوں اور تکنیکی(ٹیکنیکل)جرائم کو حضرت انسان سے کرتا دیکھ کرمحظوظ ہوتا ہوگا اور ساتھ ہی پیچ وتاب بھی کھاتا ہوگا کہ یہ فعل تو میرے دماغ میں بھی نہیں تھا لیکن پھر بھی اس کا الزام میرے سر ہے۔ایسے جملے ازراہِ مذاق بھی کہے جاتے ہیں،ہاں تو ہم بات کررہے تھے کہ یہ برائیاں انسان کی خود پیدا کردہ ہیں اگر انسان تہیہ کرلے ‘حتیٰ الامکان ان برائیوں سے بچنا ہے اور دوسرے افراد کو بھی بچانا ہے تو یہ عین ممکن ہے۔فی الحال راقم کو اپنی 25سالہ زندگی میں یہ تجربہ ہوا‘جو کہاں تک درست ہے اِس کا اندازہ تو مجھ سے بہتر آپ لگاسکتے ہیں۔برائیاں ،بدی اور گناہوں کا آغاز کہاں سے ہوتا ہے؟اس سوال کا جواب ہر کسی کے اپنے نقطہ نظر سے ہوگا۔مگر اس کاجواب حقیقتاً یہ ہے کہ بدی،گناہ یا برائی کا آغاز سب سے پہلے ”حرص“ سے ہوتا ہے‘حرص (لالچ)ایک ایسی برائی ہے جو دنیا ‘جہان کے مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد میں موجود ہے اور اس کے علاوہ موروثی طور پر سفر بھی کر رہی ہے۔حرص ‘صرف دولت کا لالچ نہیں بلکہ یہ شہرت،عزت،دولت اور مرتبہ و عہدے کا لالچ ہے۔گویا کہ حرص نے انسان کو اپنے ”حسن“ کا گرویدہ بنایا ہوا ہے،یہ حرص مزدور سے لے کر اشرافیہ تک بدرجہ اتم اور درجہ بہ درجہ ‘زیادہ سی زیادہ موجود ہے۔اس کی واضح مثال سیاسی اکابرین کے اثاثہ جات اور سوئس بنک اکاؤنٹ ہیں،جب کہ عام آدمی کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی لگن میں خوشامد اور حق تلفی کرنا شامل ہیں۔قارئین!حرص تو اُن اخلاقِ رزیلہ کا آغاز ہوتی ہے‘اس سے آگے تو برائیاں اور بھی ہیں جیسے خوشامد اور حق تلفی کا ذکر کیا۔
        دوسری برائی جو ہم سب میں موجود تو ہے لیکن اپنی شہرت اور عزت کی بناءپر اس کا برملہ اظہار یا تذکرہ کرنا ناگوار گزرتا ہے،وہ ہے "حسد"۔حسد بھی ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والوں میں سرایت پزیر ہے،اور لطف انگےز بات تو یہ ہے کہ فنونِ لطیفہ سے تعلق رکھنے والے افراد جن میں ادبائ،شعرائ،فنکار وغیرہ وغیرہ ہیں‘ میں تو خصوصاً زیادہ ہی ،جب یہ حضرات کسی تقریب میں ہو تو اس وقت سب کچھ عیاں ہو جاتا ہے،یہاں حاسدین کی وافر کھیپ پنہاں ہے۔حسد میں حرص کا عنصر بھی موجود ہے۔وہ ایسے کہ ایک شخص جس کی بہت شہرت ہو اورکثیر زر و مال ہو تو اس کے دوست احباب کے علاوہ دیگر افراد بھی یہ سوچتے ہیں کہ اتنا کچھ تو میرے پاس بھی ہونا چاہیی۔موخرالذکر یہ نہیں سوچتی کہ اس شخص نے یہ مرتبہ ،مقام کس صورت میں پایا ہے،آیا کہ جائز یا ناجائز!اگر جائز صورت میں نام کمایا تو اس کو اس مقام تک پہنچنے کے لیے کتنی محنت کرنا پڑی۔۔۔لیکن یہاں معا ملہ اس کے بر عکس ہے ،موخرالذکر اشخاص ایسا بہت کم کرتے ہیں اور حرص کرنے لگتے ہیں اور حسد پر اکتفا کرتے ہیں۔اس کی مزےد واضح مثال تےسری برائی کے بعد سمجھ آئے گی۔
        حسد کے بعد جس برائی کو راقم نے درجہ سوم پر رکھا وہ "انتقام" ہے ۔درج بالا سطور کا (اختتامی)انجام”انتقام“پر منتج ہوتا ہے،جب حاسد شخص حرص اور حسد سے ”ترقّی“کرنے لگتا ہے تو وہ انتقام کی طرف قدم بڑھاتا ہے،انتقام کا ایک لازم جزو"ضد" ہے اور ضد انتقام پر اکساتی ہے،وہ اس شخص کے مقام ومرتبہ،شہرت، دولت اور عزت سے ضِد کرتے ہوئے انتقام کی طرف مائل ہوتا ہے اور اگرانتقام اپنے منطقی انجام تک نہ پہنچ سکے تو وہ شخص دوبارہ حرص پر اکتفا کرتے ہوئے مسائل اور الجھنوں کی دلدل میں خود کو پھنسا لیتا ہے۔
        قارئین!حِرص،حَسداور اِنتقام تینوں میں ”ضِد“کے عناصر موجود ہیں،ان تینوں برائیوں سے انسان اَزل سے نبرد آزما ہے اور اَبد تک ایسا ہی ہوگا۔اگر یہ سلسلہ ایسا ہی رہنا ہے تو ایسے میں کیا کرنے کی ضرورت ہے کہ ان سے بچنا ممکن ہو سکے اس کا حل یہ نہیں کہ انسان حرص،حسد اور انتقام کی طرف مائل نہ ہو بلکہ یہ تو ممکن ہی نہیں کہ ان تینوںمنفی اوصافِ رزیلہ سے بچا جا سکے بلکہ اس کا سیدھا اور آسان کلیہ(فارمولا) تو یہ ہی‘ وہ تین اچھائیاں اپنائی جائیں جو اس کا علاج ہوں،جن کا مقصد اور عمل ایک ہو۔وہ تینوں اچھائیاں صرف کام،کام اور کام ہیں۔حیران کن بات یہ ہی ان تینوں اچھائیوں کے سامنے مذکورہ بالا برائیوں کی اوقات اور مرتبے بہت چھوٹے رہ جاتے ہیں۔کام‘ایسی خوبی اوروصف ہے جو ہر برائی اور ہر خامی کو چھپا دیتا ہے،ایک وقت آتا ہے کہ انسانی نفسیات،عادات اور جسمانی کیفیات صرف کام کی عادی ہو جاتی ہیں اور ان برائیوں کو پرورش پانے کی مہلت اور وقت میسر نہیں آتا۔ضرورت اس امر کی ہے انسان خود کو تنہائی میں سمجھائے اور اپنا محاسبہ کرے،اپنی برائیوں میں ان برائیوں کو تلاش کرے اور ان سے جنم لینے والی بقیہ اخلاقِ رزیلہ اور اخلاق سوز اعمال کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کو ختم کرنے کی حتی المقدور سعی کرے ۔اس کا آغاز صرف کام اور مثبت کام سے ہی ممکن ہے۔عین ممکن ہے کہ حالات ،معاشرہ اور ماحول اس کی اجازت نہ دے لیکن جب کام کرنے کی عادت پڑ جائے تو کام خود بخود معاشرے کو اس شخص کے اوصاف کی طرف مائل کرتا ہے،تو یہ برائیاں ہیچ ہو جاتیں ہیں،یہ موجود تو رہتیں ہیں مگر انھیں سر اٹھانے کا موقع نہیں ملتا۔معروف ماہرِنفسیات ،لیکچراراور نوجوان دانشور ڈاکٹر کاشف فراز کا قول ہے”کام کرتے رہنے سے ہو جاتاہے“،اور جب کام کرتے رہنے سے ہو جاتا ہے تو یہ معاشرہ میں جلد یا بدیرخود اپنی جگہ بناتا ہے۔
        اس لیے ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد خصوصاً نوجوانوں کو چاہیے کہ شارٹ کٹ کی بجائے صرف کام اور مثبت کام کی طرف توجہ دیں اور مثبت نتائج اخذ کرنے کی ٹھانیں ، سب کچھ آپ کے سامنے آجائے گا۔
Please Post your precious Comments with your Mobile Number.
.... ٭ ٭ ٭ ....

یومِ عاشورہ:تحقیق

0 comments
تاریخ کے آئینے میں: یومِ عاشورہ
تحریروتحقیق:رحمان محمود خان

(پہلا کالم جو مقامی روزنامہ اور
نیوز اردو میں شایع ہوا)
یوں تو سال کے بارہ مہینے اور ہر مہینے کے 30دن مقدس اور اللہ تعالیٰ کے پیدا کیے ہوئے ہیں اور ان دنوں میں کچھ مخصوص ایام بھی ہیں جن کے بارےمیں رب العزت نے کچھ خاص احکامات صادر فرمائے ہیں،اسی طرح اسلامی سالِ کا آغاز محرم الحرام کے مہینے سے ہوتا ہے‘جس کو اللہ و عزوجل نے قرآن ِمجیدمیں حرمت والا مہینہ قرار دیاہے۔
محرم کی دسویں تاریخ کو ”عاشورہ“ کہتے ہیں جس کے معنی ہیں”دسواں دن“جب تک رمضان کے روزے فرض نہیں ہوئے تھے اس وقت تک عاشورہ کا روزہ رکھنا مسلمانوں پر فرض قرار دیا گیا اور جب رمضان کے روزے فرض قرار دئیے گئے تو عاشورہ کے روزہ رکھنے کی فرضیت منسوخ کردی گئی لیکن آنحضرتﷺنے عاشورہ کے روزہ رکھنے کو سنّت اور مستحب قرار دیا ہے ایک حدیث میں حضور ِاکرمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ:
"مجھے اللہ و عزوجل کی رحمت سے امید ہے کہ جو شخص عاشورہ کے دن روزہ رکھے اسکے پچھلے ایک سال کے تمام گناہوں کا کفّارہ ادا ہو جائے گا"۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ عاشورہ کے دن کی فضیلت یہ ہے کہ اس دن نبی پاک کے نواسے حضرت امام ِ عالی مقام حسین ؓ شہید ہوئے بلکہ اس شہادت کی وجہ سے یہ دن مزید حر مت والابن گیا ۔حضرت محمد ﷺ کے عہد میں عاشورہ کا دن مقدس سمجھا جاتا تھا جبکہ حضرت امام حسینؓ کی شہادت تو رسول ِاکرم کے وصال کے 60سال بعد ہوئی تھی۔لہٰذا یہ بات صحیح نہیں کہ عاشورہ کی حرمت اس واقعہ کی وجہ سے ہے بلکہ یہ تو امام حسینؓ کی فضیلت کی دلیل ہے کہ اللہ نے آپؓ کو شہادت کا مرتبہ اس دن عطا فرمایا ،بہر حال عاشورہ کا دن ایک مقدس دن ہے۔
بعض لوگوںمیں یہ بات مشہور ہے کہ جب حضرت آدمؑ دنیا میں اترے تو وہ عاشورہ کا دن تھا۔حضرت ابراہیم ؑ کو جب آگ میں ڈالا گیا اور اس آگ کو گل و گلزار بنادیا گیا اورجب حضرت نوح ؑ کی کشتی طوفان سے خشکی میں اتری تو وہ بھی عاشورہ کا ہی دن تھا۔لیکن ان تمام باتوں کی کوئی صحیح روایت نہیں ہے کہ یہ واقعات عاشورہ کے دن ہی پیش آئے تھے۔
ایک روایت میں ہے کہ جب حضرت موسیٰ ؑ کا مقابلہ فرعون سے ہوا تو حضرت موسیٰ ؑدریا کے کنارے پر پہنچ گئے،لشکر ِ فرعون پیچھی آرہا تھاتب اللہ تعالیٰ نے اس وقت حضرت موسیٰ ؑکو حکم دیاکہ اپنی لاٹھی دریا کے کنارے پر ماریں جس کے نتیجے میں دریا کے12راستے بن گئے اور ان راستوں کے ذریعے موسیٰ ؑکا لشکر دریا پار چلا گیا اور جب فرعون دریا کی پاس آیا تو وہ دریا میں خشک راستہ دیکھ کر دریا کے اندر چلا گیا ۔لیکن جب فرعون کا تمام لشکر دریا کے درمیان پہنچا تو حکم ِخداوندی سے دریا کا پانی آپس میں مل گیا یوں فرعون اپنے لشکر سمیت ڈوب گیا اس بارے میں روایت ہے کہ یہ واقعہ عاشورہ کے روز پیش آیا۔باقی تمام واقعات کا عاشورہ کے دن سے نسبت ہونے یا نہ ہونے کا اصل ثبوت موجود نہیں۔
عاشورہ کا روزہ
حضرت عبداللہ بن عبّاسؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرمﷺ جب مدینہ منوّرہ تشریف لائے تو دیکھا کہ یہود عاشورہ کے دن روزہ رکھتے ہیں ،آپ نے دریافت فرمایا کہ ” تم اس دن روزہ کیوں رکھتے ہو؟“انہوں نے کہا کہ” یہ دن عظمت و بزرگی والا ہے ‘اس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ اور بنی اسرائیل کو فرعون اور اسکے لشکر سے نجات دی۔ادائے شکر کے لئے حضرت موسیٰ ؑنے اس دن روزہ رکھا اسلئے ہم بھی روزہ رکھتے ہیں“۔نبی اکرم نے فرمایا ” تمہاری نسبت ہم موسیٰ ؑ کی سنّت پر عمل کرنے کے زیادہ حقدار ہیں۔چنانچہ حضرت محمد ﷺ نے اس دن روزہ رکھا اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کو روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ “(بخاری ‘مشکوٰة جلد 1صفحہ446)

Please Post your precious Comments with your Mobile Number.
Thanks for Reading....
....٭ ٭ ٭  ....

ہفتہ، 11 دسمبر، 2010

ناخواندگی اور ۔۔۔۔ فیچر

2 comments
3Rناخواندگی اور
تحریر: رحمان محمود خان

دنیا نت نئے چیلنج سے دوچار ہے اور پاکستان کے بھی حالات ایسے ہیں کہ مضبوط اور باوقار ملک کے لیے اچھے اور روشن مستقبل کی ضرورت ہے،کسی قوم کا انحصار اور اعتماد نوجوان نسل پر ہوتا ہے۔اگر نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت اور اخلاقی تربیت احسن انداز سے ہو رہی ہے تو وہ اس قوم کی کامیابی کی کنجی ہے۔تعلیم ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جو حقائق اور اصلیت سے آگاہ کرتا ہے اور باشعور بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
پاکستان سمیت دنیا کی ہر قوم اور ملک کا خواندگی کا معیار مختلف ہے۔معیارِخواندگی کا اندازہ اس قوم کی معاشرتی اور اقتصادی ترقی سے مربوط ہونا ضروری ہے۔مثال کے طور پر روس اور امرکا میں وہ افراد جو پانچویں جماعت پاس طالبِ علم کے لیول کے مطابق پڑھ سکیں،عبارت کا مفہوم جان سکیں اور خیالات کو جان سکیں اور اپنے خیالات کو مجتمع کرکے کاغذ پر قلم بند کر سکیں(لکھ سکیں)‘انہیں خواندہ کہا جاتا ہے۔اسی طرح پاکستان میں خواندگی کا معیار 1981ع میں حکومتِ وقت نے مردم شماری سے قبل مقرر کیا جس میں کہا گیا کہ”کسی اخبار میں تحریر شدہ عبارت کو پڑھنا اور سادہ خط لکھنا خواندگی کے زمرے میں آتا ہے۔
پاکستان میں جب مردم شماری ہوتی ہے تو افراد کی گنتی کرکے خواندگی کا معیار مقرر کےا جاتا ہے،جس کی حالیہ تازہ مثال بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام میں غربت سروے کے دوران کی جانے والی مردم شماری ہے۔راقم کے خیال میں خواندگی سے مرادافراد کی پڑھنے لکھنے کی ابتدائی صلاحیت و قابلیت ہےلیکن اس کے برعکس ایک شخص جو محض خط پڑھ سکتا ہے اوراس میں لکھنے کی صلاحیت محض حروفِ تہجی کو توڑ توڑ کر لکھنا ہے تو کیا ہم کہیں گے کہ یہ شخص خواندہ ہےکہ نہیں؟اس کا جواب ”ناخواندہ“ہے۔یہ شخص خواندگی اور ناخواندگی کے درمیان حائل ہے۔خواندگی کی تعریف کو مزید واضح کرنےکےلیےہم یونیسکوکے مطابق"خواندہ وہ شخص ہے جو کسی بھی زبان میں عبارت یا تحریر کا ایک پیراگراف سمجھ بوجھ کے ساتھ پڑھے اور اسے لکھنے کے ساتھ ساتھ بیان بھی کر سکے تو وہ شخص خواندہ کہلائے گا۔"
اقوام کی ترقی کا راز تعلیم کا مرہونِ منت ہوتا ہے جس ملک کے افراد زیادہ تعلیم یافتہ ہوں اور تعلیمی قابلیت کے ساتھ ساتھ شعور کی باصلاحیت دولت سے مالا مال ہوںتو وہ قوم اتنی ہی ترقی کے راستے پر گامزن ہوگی۔ سری لنکا اور چین‘پاکستان کے بعد آزاد ہوئے جب کہ جاپان پر تاریخ کی بد ترین انسانی حقوق کی پامالی کرتے ہوئے ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے گئے لیکن ان تینوں ممالک نے ناصرف اپنے اپنے ملک کو استحکام بخشا بل کہ تعلیم اورٹیکنالوجی میں کئی ممالک کو میدان بدر کر گئے۔پاکستان کا شمار ان ممالک کے عشرِعشیر بھی نہیں ہوا کیوں کہ جب سے پاکستان آزاد ہوااس کے کم از کم تین مسائل تعلیمی لحاظ سے درپیش ہیں جن میں سر فہرست،
۔ناخواندگی1
۔معیارِتعلیم2
۔تعلیم ِنسواں3
اِن تینوں مسائل پر سیرِحاصل بحث ممکن ہے لیکن اصل اور حقیقی مسئلہ ناخواندگی کا ہے چاہے مردکی ہویاعورت کی۔پاکستان کا شماردنیاکے ترقی پزیرممالک میں ہوتا ہے،اس لیے تقریباًیہاں ہرمیدان میں بہت زیادہ اور بَروقت کام کرنے کی ضرورت ہے۔تعلیمی لحاظ سے پاکستان دوسرے ایشیائی ممالک سے بہت پیچھے ہےجن کی وجہ وہ محرکات ہیں جس نے وطن ِعزیز کو ترقی پزیر بنانے میں مستقل کردار ادا کیا،جن میں
۔ غربت1
۔ آبادی میں اضافہ2
۔ تعلیمی اخراجات3
۔ معیاری سکولوں کی کمی اور4
۔ والدین کا رویہ شامل ہیں۔5
پاکستان کا زیادہ تر غریب طبقہ جو اکثریت پر مشتمل ہے‘اخراجات برداشت نہیں کرسکتے۔والدین قلیل آمدن اور محدود وسائل کے باعث اپنےبچوں پرتعلیمی میدان میں سرمایہ کاری کرنے سے گریزاں ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق5سے9سال کی عمر کے تقریباً54لاکھ بچے سکول میں داخل نہیں ہوتے اور ابتدائی تعلیم سے محروم رہتے ہیں۔جب کہ ایک سروے کے مطابق9سے12سال کی عمر کے82لاکھ بچے معیارِتعلیم سے اکتاہٹ یا گھریلو مجبوریوں کی بنا پر تعلیم کو خیرباد کہہ کر اپنے والدین کا ہاتھ بٹانا شروع کردیتے ہیں۔
ملک میں سالانہ شرحِ خواندگی میں اضافہ1.3%فیصد ہے‘جب کہ آبادی میں اضافہ اس سے دوگنا سے بھی زیادہ3.5%فیصد ہے۔تعلیمی سہولتیں اِس کے مقابلے میں انتہائی کم ہیں اور اس تناسب سے تعلیمی ماہرین سونے پہ سہاگہ کے مصداق بجٹ میں کچھ یا زیادہ ہیرا پھیری بھی کر دیتے ہیں۔اقوام ِمتحدہ کے ادارےیونیسکو کی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ ترقی پزیرممالک اپنی قومی آمدنی کا 4%فیصد تعلیم پرخرچ کریںلیکن وطنِ عزیز کے حالات مختلف ہیں۔یہاں تقریباً2%فیصدتعلیم پرخرچ کیا جاتاہےجس میں سے بھی 07%فیصد خوردبرد کر دیتے ہیں۔
ملک میں معیاری سکولوں کی کمی ہے،یوں تو ہر گلی محلہ ،چوراہے پر خوبصورت انگلش کے جلی حروف میں سکولوں کے نام تو ملتے ہیں لیکن وہ ”اونچی دکان پھیکا پکوان“کے مصداق محض وقت گزاری اور رقم بٹوری کی کارگزاری ہوتی ہے۔کاغذوں اور بینروں کے پیٹ بھرنے کا سلسلہ اور رجسٹریشن کے نام پر50,50(ففٹی ففٹی)کا ایک انداز ہوتا ہے۔
ایک اور وجہ والدین کا رویہ ہے چونکہ والدین خود پڑھے لکھے نہیں ہوتے،تعلیم کی افادیت سے عاری ہونے کے باعث سنجیدہ رویہ نہیں رکھتے۔اس لیے بھی وہ بچوں کو سکول بھیج کر وقت کا ضیاع کرنے سے اجتناب برتتے ہیں۔چند روز قبل راقم کی سفر کے دوران تین افراد سے ملاقات ہوئی جو مزدوری کے لیے جارہے تھے اور ان کے ہمراہ دو بچے جو کہ سردی سے ٹھٹھر رہے تھے،سے پوچھا کہ بچوں کو پڑھاتے لکھاتے کیوں نہیں تو ان کا جواب تھا کہ ہمارے دو دو بچے ہیں،دو وقت کی روٹی اور اخراجات پورے نہیں ہوتے،اپنے بچوں کے لیے گرم کپڑے اور دوائی لینے کے پیسے نہیں بچتے،گھر کا کوئی فرد بیمار ہو جائے تو چیک اپ کروانا دوبھر ہو جاتا ہے ‘ایسے میں بچوں کو پڑھانا ممکن نہیں اور یہ تو مذاق لگتا ہے۔راقم کو محسوس ہوا کہ ان سے یہ بات پوچھنا ان کی طبعیت پر گراں گزرا'کیوں کہ دوسرے مسافر بھی یہ بات سن رہے تھے،بہرحال اس کے بعد چہ میگوئیوں کا ایک نا تھمنے والا سلسلہ شرع ہوگیا۔حقیقت بھی یہی ہے کہ جب گھر میں دو وقت کی روٹی پوری کرنا مشکل ہو تو ملک کا غریب طبقہ اپنے بچوں کو تعلیم کیسے دلوائیں؟ان افراد سےگفتگو میں حالات کی کسم پرسی پنہاں تھی۔ وہ بھی چاہتے تھے کہ ان کے بچے بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں لیکن یہاں بتانا مقصود ہے کہ کچھ والدین ان پڑھ ہونے کے باوجود تعلیم کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور کچھ والدین تعلیم کی سمجھ بوجھ سے عاری ہونے کی وجہ سے آبادی میں محض اس لیے اضافے کو بہتر گردانتے ہیں کیونکہ زیادہ بچے ہوں گے تو کچھ 9,8 سال کی عمر میں مختلف جگہوں‘ ورکشاپ‘ دکانوں وغیرہ پر روزانہ کچھ نہ کچھ تو کما کر لائیں گے۔ ناخواندگی کی یہ بھی ایک وجہ ہے جس کے باعث شرح خواندگی میں اضافے کی بجائے ناخواندگی کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ خواندگی کو 3-آرسے بھی موسوم کیا جاتا ہے کیونکہ خواندگی ان مہارتوں کے مجموعے کا نام ہے۔

Reading (R)۔ پڑھنا ،1
Writing (R)۔ لکھنا،2
اور
Arithmetic (R) حساب کتاب،گنتی وغیرہ،3
چونکہ ان تینوں مہارتوں میں مشترک ہے، اسی لیے خواندگی کو انگریزی میں3 آربھی کہتے ہیں۔3R
ممالک کے لحاظ سے سب سے کم شرح خواندگی پاکستان کی ہے جو کہ 51.6% فی صد بنتی ہے جب کہ سب سے زیادہ شرح خواندگی کے لحاظ سے آسٹریلیا ہے جس کی شرح خواندگی 99.5% ہے۔ مالدیپ‘ جنوبی کوریا اور امریکہ کی شرح خواندگی بالترتیب 98.9%‘ 98.9% اور 98.5% ہے۔ اس کے بعد ایران 92.9%‘ سری لنکا 92%‘ ملائیشیا 85.6‘ چین 84.3%‘ بنگلہ دیش 65%‘ بھوٹان 54%‘ بھارت 57% ‘ نیپال 51% کے ساتھ سرفہرست ہے۔ اس اندازے سے معلوم ہوتا ہے کہ وطن عزیز کو شرح خواندگی بڑھانے کے لیے کافی زیادہ اقدامات کرنا پڑیں گے لیکن ان اقدامات سے اس وقت تک کچھ حاصل نہ ہوگا جب تک بنیادی غلطیاں دور کرکے تعلیمی ڈھانچہ بہتر نہیں بنایا جاتا۔ اگر ہم اپنا نظام تعلیم انگریزوں کا بنایا ہوا اپنا سکتے ہیں تو جن ممالک کی شرح خواندگی زیادہ ہے ان کے نظام تعلیم اور وطن عزیز کے نظام تعلیم کا موازنہ کرکے بنیاد کو درست کرنے میں بھی کوئی حرج ہے لیکن اس کے ساتھ حکومت کو چاہیے کہ نمائشی سرگرمیاںمیں بے جا اسراف کرنے کی بجائے عملی اقدامات کریں اور ملک گیرسطح پر تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے مہم کا آغاز کریں۔اس مہم کی تجاویزمیں اپنے آئندہ فیچرمیں قارئین کی نظر کروں گا۔
تحریر : رحمان محمود خان
Feedback:peghaamnews@gmail.com
٭٭**٭٭

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *