جمعرات، 30 اپریل، 2009

دنیاکےمحنت کشوں۔۔۔۔ جیتنےکےلیےساراجہاں پڑاہے

0 comments
دنیاکےمحنت کشوں۔۔۔۔ جیتنےکےلیےساراجہاں پڑاہے
تحریر:      رحمان محمود خان

"دنیا کے محنت کشوں! متحد ہو جاؤ
کھونے کے لیے تمہارے پاس تمہاری
 غلامی کی زنجیروں کے سوا کچھ نہیں اور
 جیتنے کے لیے ساری دنیا پڑی ہے"
آج سے تقریباً 122سال قبل یکم مئی1886عکو امریکہ کے شہر شکاگو سٹی کے “ہئے مارکیٹ اسکوائر” میں عالمی مزدور تحریک کے منّظم کارکنان اپنے مطالبات منوانے کے لیےجمع ہوئے،تب سامراجی طاقتوں کے حکم پر ان کے وحشی سپاہیوں نے چاروں طرف سے گولیوں کی بوچھاڑ کر دی اور اس سانحہ میں لاتعدا بے گناہ مزدوروں کے خون سے مارکیٹ اسکوائر کی سڑک کو نہلا دیا گیا۔آٹھ مزدور لیڈروں کو گرفتا ر کر کے انہیں سزائے موت سنا دی گئی۔اس سانحے کے تقریباً تین سال بعد1889عمیں یہ فیصلہ کیا گیا کہ آئندہ ہر سال یکم مئی کو ساری دنیا کے محنت کش اس عظیم سانحے کو یاد کرنے کے لیے”یومِ مئی” منائیں گے۔
دنیا جو گلوبل ویلج کا روپ دھار چکی ہے ‘ اسکا مزدور بے پناہ مسائل اور مشکلات سے نبرد آزما ہے۔بورژوا نظام پنجے گاڑے بیٹھا ہے اور مزدور تحریک کو دبانے اور کچلنے کے لیےاوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتا۔جب محنت کش مرد و خواتین تمام دن کی محنت و مشقت کر کے تھکے ماندے گھروں کو لوٹتے ہیں تو ان کے پاس اپنی ذات کو وقت دینے کا بھی "وقت"نہیں ہوتااور یہ طبقہ اپنے حقوق سے نابلد ہونے اور اپنی اپنی ٹریڈ یونین سے لاتعلقی اور لا علمی کے باعث قانونی سہولیات سے محروم ہے۔لمبے اوقات کار،کم معاوضہ،ٹھیکیداری نظام،صحت و تحفظ کی سہولیات کا فقدان اور گھریلو ذمہ داریاں جیسے عوامل ان کے استحصال کی بھی ایک وجہ ہے۔محنت کش طبقہ اپنے حقوق سے لاعلم ہے جسکی وجہ سی انکو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ جو معاوضہ انکو دیا جا رہا ہے‘کیاوہ لیبر قوانین کے عین مطابق ہے؟انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (ILO) کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے 89فیصد شہریوں کی زندگی کا دارومدار اتفاقیہ آمدن پر ہے جبکہ پاکستان کی15فیصد آبادی پرائیویٹ اور گورنمنٹ سیکٹر میں ملازمین ہیں اور ملک میں شاندار “معاشی ترقی “ کے باعث45فیصد آبادی غربت کی حد سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔مزدوروں کی محنت پر” پلنے والے” صنعت کار اور سرمایہ دار طبقے کی ہر ممکن یہ کوشش رہی ہے کہ مزدور طبقے کوکالے قوانین کے ذریعے یاتوکچل دیاجائے یا پھر عارضی سہولیات کے معاہدوں کے ذریعے سمجھوتہ بازی کر لی جائے،جب ضرورت ہو تب ٹریڈ یونین پر پابندی عائد کر دی جائے اور جب ضرورت پڑے تو ٹریڈ یونین کی بحالی کر دی جائے۔
آزادی کے 60برس بعد بھی جاگیردارانہ نظام پوری آب وتاب کے ساتھ موجود ہے۔وطنِ عزیز کی تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کا حکمران طبقہ چاہے وہ وردی والا ہو یا بغیر وردی کے‘60 سالوں سے محنت کش طبقے کا استحصال کر رہا ہے اور اسے جب موقع ملا اس نے محنت کشوں کے حقوق پر کاری ضرب لگائی۔آج محنت کشوں کی اکثریت خواتین پر مشتمل ہے مگر یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہمارا سسٹم ان کو کسی “کھاتے “میں نہیں لکھتااور انکو مکمل نظر انداز کیا جاتا ہے یا پھران خواتین کو غیر رسمی شعبے اور ڈیکوریشن پیس کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
آج جب دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں مزدور تحریک کی جہدِ مسلسل کی وجہ سے محنت کش طبقہ قدری بہتر زندگی گزار رہا ہے لیکن تیسری دنیا بشمول پاکستان کاہنر مند نوجون اور محنت کش طبقہ 1886ع والے محنت کشوں سے بھی زیادہ دردناک زندگی گزار رہا ہے۔سفید پوش طبقے سے لے کرمزدور طبقے تک سب کے سب معاشی اور ذہنی پریشانیوں میں مبتلا ہیں۔دو وقت کی روٹی کا مسئلہ بنا ہوا ہے،مہنگائی کے ہولناک سیلاب کے آگے بند باندھنا مشکل بلکہ ناممکن بنتا چلا جارہا ہے۔روزگار کے حصول کے لیےرشوت اور سفارش لازم و ملزوم ہیں۔ہنر مند افراد قابلِ قدر معاوضہ اور نامساعد حالات کے باعث دلبرداشتہ ہو کر خود کشی کی طرف مائل ہو رہا ہے۔تنخواہ‘مہنگائی کے تناسب سے انتہائی قلیل ہے۔ان دلبرداشتہ حالات سے ناصرف مزدور نبرد آزما ہے بلکہ دفاتر میں کام کرنے والا کلیریکل سٹاف بھی برداشت کرنے پر مجبور ہے۔پرائیویٹ اداروں میں نوجوانوں سے ٹرینی (بغیر معاوضہ )کے طور پر کام لیا جاتا ہے، ڈگری ہاتھ میں لیےاس “آوارہ” نوجوان کو پہلے تو نوکری نہیں ملتی اور اگر ملتی ہے تو سب سے پہلے ٹرینی (ٹریننگ) جاب دی جاتی ہے اور اس طرح وہ نوجوان ٹرینی کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے اپنے ہنر سے استفادہ نہیں کر سکتا اور تین ماہ کے اس عرصے میں اس پر سست روی اور نااہلی کا الزام لگا کر فارغ کر دیا جاتا ہے۔پرائیویٹ اداروں میں ہنر مند افراد کو بہت کم معاوضہ دیا جاتا ہے جس سے بمشکل انکا خرچ پورا ہوتا ہے جبکہ سرکاری دفاتر میں محدود تعداد میں کنٹریکٹ پر بھرتیاں کی جاتی ہیں اور اگر بھرتیاں میرٹ پر ہوں تو رشوت اور سفارش لازمی ہے ۔گویا کہ ٹرینی،دیہاڑی داراور کنٹریکٹ نظام کے تحت کام کرنے والے ملازمین کو زنجیروں میں جکڑ کر کام لیا جاتا ہے اور اگر کوئی حق اور انصاف کی آوازاٹھائے تو پہلے نا اہل اور بھر "فارغ" کر دیا جاتا ہے۔
تیسری دنیاکے ممالک‘ خصوصاً پاکستان میں مزدوروں کے مسائل تو بیان کئے جاتے ہیں لیکن ایک طبقہ ایسا بھی ہے جس کے مسائل کا ذکر نہ تو ریلیوں میں کیا جاتا ہے اور نہ ہی کارنر میٹنگ میں۔یہ طبقہ جن مسائل سے دوچار ہے ان کا ادراک صرف اور صرف اسی طبقے تک محدود ہے۔یہ بےچارے شریف لوگ پرائیویٹ اور گورنمنٹ کے “نوکر” کلرک ہیں۔گورنمنٹ سیکٹر میں یہ لوگ آواز بلند کریں تو متحدجدوجہد کرنے والے پلیٹ فارم کے نہ ہونے کی وجہ سے یہ آواز دبا دی جاتی ہے اور نتیجتاً مسائل کو ختم کرنے کے لیے رشوت کا سہارا لیا جاتا ہے جس سے معاشرہ پستی کی طرف چلا جاتا ہے۔پرائیویٹ سیکٹر میں قانون اور اصول پرعمل درآمدنہ ہونے کی وجہ سے ان لوگوں کو کم تنخواہ میں 12سے15گھنٹے ڈیوٹی سرانجام دینی پڑتی ہے اور اگر کوئی اصول کی بات کرے تو اس کو الزامات کی بھینٹ چڑھا کر “فارغ” کر دیا جاتا ہے اور اس کی جگہ پر ایک نیا “بدھو” بھرتی کر کےمقابلے کے نام پر جو" کالی "فضا پیدا کی ہے 'اس نے ایک ملازم کے پیچھے درجنوں ملازمت حاصل کرنے والوں کی نظریں لگائی ہوئی ہے۔
سامراجی طاقتوں کی یہ روش ہے کہ جب بھی اور جہاں بھی سامراج نے اپنے روبرو خطرہ محسوس کیا وہاں اس نے حملے شروع کر دیئے،کبھی یہ حملے گولیوں کی بوچھاڑ سے ہوئے تو کبھی قانون سازی کے ذریعے۔ان حالات میں اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ آج کامزدور ،محنت کش اور نوجوان ‘سسٹم کی بہتری کے لیے متحد ہو کر ایک پلیٹ فارم سے جدوجہد کریں۔سرمایہ دار، صنعت کار، وڈیروں اور جاگیر داروں نے ہمیشہ محنت کش کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا ،اب اس حصار کو توڑنے کی ضرورت ہے جو ہم جیسے لوگوں کو گرفت میں لیے ہوئے ہے۔
تاریخ ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ظلم وستم اور جبر کے ذریعے تحریک کی جدوجہد میں رکاوٹ تو ڈالی جاسکتی ہے مگر اس کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔محنت کشوں کے پاس اپنی محنت کے سوا ہے ہی کےاجسکے چھننے کا انکو ڈر یا خوف لاحق ہو۔مارکسی فلسفے کا یہ مارکسی قول ہے
دنیا کے محنت کشوں! متحد ہو جاؤ
کھونے کے لیے تمہارے پاس تمہاری
 غلامی کی زنجیروں کے سوا کچھ نہیں اور
 جیتنے کے لیے ساری دنیا پڑی ہے”۔
بلاشبہ ہمارے پاس کھونے کے لیے زنجیریں اور جیتنے کے لیے یہ سارا جہان ہے۔
Feedback:peghaamnews@gmail.com
٭٭**٭٭

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *