پیر، 7 اپریل، 2008

اَب میری باری ہے! ۔۔۔۔ کالم

0 comments
اَب میری باری ہے!
تحریر: رحمان محمودخان

گزشتہ دنوں ایک نجی چینل کے پروگرام کومیں سن رہا تھا جس میں میزبان نے بیان کیا کہ آج پاکستان پیپلزپارٹی کے کوچیئرمین(Co-Chairman) آصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی کے اہم راہنما اور بار کونسل کے صدرچوہدری اعتزاز احسن کی سرزنش کی،آصف علی زرداری نے اعتزاز احسن کو کہا کہ جناب آپ جو عدلیہ کی بحالی کی بات کرتے ہیں ،آپ اس وقت کہاں تھے جب میں پابندِسلاسل تھا۔اگر بغور تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ جس عدلیہ کی بحالی کی باتیں کی جارہی ہیں ان میں اکثر جج صاحبان ایسے ہیں جو نواز شریف اورصدر مشّرف کے شروع کے دور میں آصف علی زرداری کوقید میں دیکھنا چاہتے تھے۔جب زرداری کی ضمانت کے کاغذ جمع کرائے جاتے تویہ جج صاحبان ان کاغذات کو ردی کی ٹوکری کی زینت بنا دیتے۔مگر اب حالات بدل گئے ہیں ،سیاسی تاریخ مکمل تبدیل ہو چکی ہے۔جیل میں قید کاٹنے والے آج سج دھج کر کرسی پر جلوہ افروز ہیں اب قسمت نے دوبارہ یاوری کی ہے اور ایک بار پھر پاکستان پیپلز پارٹی کی باری آئی ہے لیکن اس پیچ کا موقع آصف علی زرداری کو ملا ہے۔
آصف علی زرداری نے اپنی باری کے لیے اتنا عرصہ انتظار کیا کہ اگر ان کی جگہ کوئی اور ہوتا تو شاید ہار مان جاتا لیکن سپوتِ سندھ نے چوہدری اعتزاز احسن کو یہ یاد دلایا ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو اورپاکستان پیپلز پارٹی نے عدلیہ کی بحالی کے جو وعدے لیے ہیں وہ اپنی جگہ لیکن تمام جج صاحبان اس بات کابھی خیال رکھیں اور اپنے اپنے گریبان میں جھانکیں کہ آج وہی لوگ پیپلز پارٹی اورآصف علی زرداری کے رحم و کرم پر ہیں۔بالآخر اس کڑوے سچ کا کڑوا گھونٹ چوہدری اعتزاز احسن کو پینا ہی پڑے گاکیونکہ ججوں کی بحالی کو اتنا بڑا ایشو بنا دیا گیا ہے جس سے محسوس ہوتا ہے کہ ججز کی بحالی سے ہی مہنگائی اور بجلی جیسے مسائل کا حل ممکن ہے۔ہر 15یا 20کے بعد احتجاج کا ایک نےا روپ سامنے آتا ہے کبھی دھرنے تو کبھی جلوس نکالے جاتے ہیں،پھر افتخار ڈے منایا جاتا ہے۔کبھی لانگ مارچ کا ارادہ بدل کر سیاہ پٹیاںباندھ کر بلیک فلیگ ویک منایا جاتا ہے۔
پچھلے چند ماہ سے پاکستان کے اندرونی مسائل اتنے بڑھ چکے ہیں کہ ہم آئندہ ایک ڈیڑھ سال تک بیرونی مسائل مثلاًمسئلہ کشمیر،افغانستان کا مسئلہ،امریکی افواج کی واپسی اور پاکستانی دریاؤں پر بھارتی ڈیموں کی تعمیرجیسے مسائل پر توّجہ دینے کے قابل نہیں،مہنگائی نے صرف ایک طبقے کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔بجلی کی پیداوار نہیں ہے،گندم کی قلّت ہے،معاشرہ طبقاتی تقسیم کا شکار ہو چکا ہے،سماجی نظام ‘ سامراجی نظام کے زیرِاثر کام کر رہا ہے،میڈیا نے آزادیِ صحافت کا معنی ہی کچھ اور لے لیا ہے،تعلیمی نظام ‘ شعور کی فکر سے آزاد ہے ‘ نوجوان جس نظام میں رہ رہے ہیں اس نظام میں بے حسی انکا شعار بن چکی ہے،لاقانونیت بڑھ چکی ہے اور ناجانے ان گنت مسائل سے لبریز یہ پاکستان باریوں کی سیاست کی بھینٹ چڑھ رہا ہے۔
ان باریوں کی سیاست نے ملک کو عدم استحکام کی اندھی روش پر لا کھڑا کیا ہے۔اب چار پانچ سال کے شور وغل کے بعد انتخابات میںصدرمشّرف کی مخالف جماعتیں کامیاب ہوئیں ہیں تو ان جماعتوں میں بھی اتّحاد ہونے کے باوجودآپسی معاملات میں کہیں نہ کہیں خلا ضرور موجود ہے اور اس خلا میں مفاد بھی موجود ہے ۔ اس بات کا اندازہ وہ شخص بخوبی لگاسکتا ہے جو غیر جانبدار ہو کر تجزیہ کرے ‘سوچے‘ سمجھے۔سابق جج ملک کے مستقبل کو داؤ  پر لگا کر سیاسی جماعتوں کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کر رہے ہیں اوریہی حال سیاستدانوں کا ہے جو آمر انی نظام کو تبدیل کرنے کے لیے ججوں اور وکیلوں کو ہتھیار کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔یہ انتقامی اور ضِد کی سیاست اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ جو ناانصافی آصف علی زرداری کے ساتھ کی گئی اب وہ اس کا جواب بھی دیں گے کیونکہ اب عوام نے ان کو باری دی ہے۔لیکن مجھ ناچیز کاآصف علی زرداری کو یہی مشورہ ہے کہ جس طرح آپ نے ایم کیو ایم اور ان کے شہید کارکنوں کو معاف کیا ہے اس طرح آپ اب پچھلی باتوں اور یادوں کو بھول کر ایک متّحدہ سیاست کی داغ بیل ڈالے،انتقامی سیاست کو یکسر فراموش کر کے ملک کو بحرانوں سے نکالیں اور اپنے ساتھ ساتھ اپنی اتّحادی جماعتوں کی بھی توجّہ اس طرف دلائیں،افہام و تفہیم سے جس طرح وزیرِاعظم کا فیصلہ کیا ہے اسی طرح افہام و تفہیم سے تما م اتّحادی جماعتوں کو قائدین اور صدر مشّرف کو ایک پلیٹ فارم پر یکجا کر لیں۔ تب کہیں جا کر محترمہ بے نظیر بھٹو کی روح کو سکون اور پاکستان کی ڈوبتی ناؤسنبھل پائے گی۔
اس کالم کی توسط سے میں آصف علی زرداری کو یہ باور کرانا چاہوں گاکہ جناب ‘ عوام نے پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کے نعرے روٹی،کپڑا اور مکان کو سنا ‘ ضیاءالحق کے"اسلامی نفاذ" کی بازگشت بھی سنی ‘پاکستان پیپلز پارٹی کی دور اندیش سیاستدان محترمہ بے نظیر بھٹوکی آواز پر دو مرتبہ لبّیک کہا ‘ پھر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف کی جرات اور بے باکی کے نعرے ہم آواز ہو کر لگائے پھر صدر مشّرف اور پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سربراہان کو ” سب ٹھیک ہے‘ ترقّی ہو رہی ہے ‘ خزانہ بھرا ہوا ہے“ کی سر گوشی بھی سنی لیکن یہ سب کچھ ہوا ‘ترقّی بھی ہوئی مگر کہاں؟ آج دو وقت کی روٹی کا مسئلہ بنا ہوا ہے، مہنگائی نے غریب کی پہنچ سے تقریباً ہر شے کو دور کر دیا ہے،اکثریت کے پاس ذاتی مکان نہیں، اسلامی نظام کا نفاذ تو دور کی بات‘ ہم مغرب کی تقلید کررہے ہیں۔
مختصراً یہ کہ آج آپ ایسا نظام نافذالعمل کریں جو غریب کو امیر نہ سہی لیکن اس کا گزارہ ممکن بنا سکے۔عوام کا اس بار آپ کو باری دینے کا مقصد بھی یہ ہے کہ شاید آپ میں وہ دَم ہے جو پچھلے حکمرانوں میں نہیں تھا۔اب فیصلہ کرنا آپ کا کام ہے۔

تحریر: رحمان محمود خان
Feedback:peghaamnews@gmail.com
 
٭٭**٭٭

منگل، 25 مارچ، 2008

میرےداداکی چِتاکوکس نےآگ لگائی؟۔۔۔ کالم

0 comments

میرےداداکی چِتاکوکس نےآگ لگائی؟
تحریر :    رحمان محمودخان


 عظیم سکالر سقراط کا قول ہے،
 "فنونِ لطیفہ کے ہر اس شخص کو ختم کردو جو فن اور اسکی گہرائی کو سمجھنے کی بجائے اسکا غلط رنگ میں پرچار کرکے عکاسی کرتا ہے ۔"
فن ‘فنونِ لطیفہ کا ایسا رکن ہے جس میں حالات و واقعات اور موقع کی مناسبت سے رنگ و آہنگ کی عکاسی ہو۔لیکن ہمارے ہاں دستور نرالاہے‘ہم اس فن کے دلدادہ بنتے چلے جارہے ہیں جس کے سَر اور پیر سے خود فن کے قابض دیوتا نابَلداور ناآشنا ہیں۔ہم نے فن کی ایک الگ تعریف بنالی ہے۔فنونِ لطیفہ سے وابستہ عصرِحاضر کے لوگ ‘ ثقافت اور تہذیب کی فن سے وابستگی کو فراموش کر چکے ہیں۔ہمارے ماضی اور حال کے چند فنکار گھروں میں بیٹھ کر نام نہاد"فن کاروں" کو دیکھنے پر مجبورہوچکے ہیں۔بے شک فن میں زیبائش کا عمل دخل ضرور ہوتا ہے لیکن اس میں وقت اور ماحول کی ثقافت و تہذیب اور اقدار بھی لازم و ملزوم ہے جو تقریباً برِّصغیر پاک و ہند میں ناپید ہو چکی ہے۔
ہم نے اپنے بڑوں سے سنا ہے کہ مشہوربھارتی سیاستدان اندرا گاندھی نے 1970ع کی دہائی میں بھارتی میڈیا کو یہ تنبیہہ کی،اگرمسلمانوں خصوصاً پاکستانیوں کو نیچا کرنا ہے تو اِن کی ثقافت میں بھارتی ثقافت کی آمیزش کردو اس طرح پاکستانی اپنی ثقافت میں تمیز برقرار نہ رکھ سکیں گے ‘اِن کو ثقافت کی مار دو،اور واقعی بھارتی چینلز نے ثقافتی یلغار کی اور آج ہماری مَسّخ شدہ ثقافت ان کی ہی ثقافت کی اصل شکل ہے۔
مشہوربھارتی سٹارسیریز کے چینلزکی بھرمار اور ان پر دکھائے جانے والے سیریلز ایسی کہانیاں بنا رہے ہیں جن کی مثال نہ اُن کی ثقافت میں ہے اور نہ پاکستانی ثقافت میں،لیکن ہماری نوجوان نسل اور (پچھلی) نوجوان نسل ان ڈراموں کو بہت ہی شوق اور تجسس کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ان ڈراموں میں دکھائے جانے والا لباس ،بول چال اور بڑوں کے ساتھ روّیہ مغربی ثقافت کی تو عکّاسی کرتا ہے لیکن مشرقی روایات کی رُو گردانی کرتا ہے‘جیسے کہ  ایک لڑکی نے بلاؤز اور نیکر پہنی ہوئی ہے اور وہ شاپنگ مال میں اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ شاپنگ کر رہی ہے اور پھر کچھ دیر بعد وہ آئس کریم پارلر میں دعوت اڑا رہی ہے ۔ اگر اِس عمل کا ہم اپنے معاشرے میں تصّور کریں تو یہ ناممکن ہے‘اِس طرح کے لباس کو تو ہندو معاشرے میں بھی ’پاپ‘ سمجھا جاتا ہے۔ہندی چینلز نے اپنی لیڈر اِندرا گاندھی کے قول کو تو سچ کر دکھایا لیکن ان کی اپنی ثقافت اس مقابلے کی وجہ سے”ڈانواڈول“ ہو گئی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ہماری ثقافت کے علمبردار بھی نجی طائفوں میں دوسرے ممالک میں جا کراسی ننگ پن اور چست پہن کا مظاہرہ کرواتے ہیں۔
کچھ عرصے سے پاکستانی نجی چینلز بھی بھارتی ڈرامہ سیریلز کی کاپی کرتے نظر آتے ہیں جس میں کھلم کھلا عشق ومحبت کا اظہار،کالج میں لڑکے لڑکیوں کے بد مزاح سین، بڑوں کے فرمان کی حکم عدولی اور وغیرہ وغیرہ۔ ڈراموں میں کچھ اِس انداز سے کالج کے مخلوط ماحول کی عکاسی کی جاتی ہے کہ جس کو بزرگ افراد اپنی بیٹیوں کےلیےبُرا اور معیوب سمجھتے ہوئے اُن کی کالج سے کنارا کشی کروادیتے ہیں۔جس کا اثر معاشرے میں رویوں کی خرابی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
ہندی چینلز تو اپنے مقصد میں کامیاب ہو چکے ہیں لیکن اب ناجانے پاکستانی سرکاری اور نجی چینلز کے کیا مقاصد ہیں؟درپردہ یہ چینلز بھی ان ہی کے لائحہ عمل کو آگے بڑھارہے ہیں۔ہمارے ڈراموںمیں اس "ننگ پن اور ساس، بہواور نند کی چالوں "کی ایسی روایت پڑ چکی ہے کہ جس کے بغیر کہانی ادھوری تصّور کی جاتی ہے۔اس بات کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا ' آٹھ سال پہلے تک بھی پاکستانی ڈراموں میں پاکستانی ثقافت ، ماحول ، سکرپٹ ، لوکیشن ، عکاسی ، کہانی ، بول چال،اَدب،مکالمے ، کردار نگاری اورزیبائش کا رَنگ چھلکتا تھا۔اسی وجہ سے وہ ڈرامے وقت کی زینت بنے اور عوام کے ذہنوں پر نقش ہوئے جب کہ آج ہمارے ڈراموں کا نہ وہ معیار رہا ہے اور نہ سکرپٹ پر محنت ماضی کی طرح ہے۔اس کام کی تعریف اکثر لوگ یہ کہہ کر کرتے ہیں کہ
 ماضی میں کہانی کی ڈیمانڈ ویسی تھی جب کہ آج دنیا گلوبل ویلیج کی شکل اختیار کر گئی ہے‘ ترقی ہو رہی ہے اس لیے اب کہانی بھی ایسی ہی بنے گی'لیکن اس دلیل پر اختلاف ہے کہ دنیا کے گلوبل ویلیج کے بننے سے ‘ کیا ہماری ثقافت اور ہمارے مسائل ختم ہو گئے یا بدل گئے ہیں؟میرے خیال سے ایسا نہیں ہے بَل کہ ان میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
آج اگر ایک باپ اپنی جواں سالہ بیٹیوں کو اِس بے ہودہ عکاسی کو دیکھنے سے روکتا ہے تو وہ باپ دقیانوسی خیالات کا مالک ہے،ہاںوہ باپ ماڈرن خیالات کا مالک اس وقت ہوسکتا ہے جب وہ اس ترقی کے  لبادے میں ننگ پن کی ثقافت کی عکاسی کو بمع اہل و عیال قہقے مارکر اور سر ہلا ہلا کر دیکھے! لیکن جب اسی باپ کا بچہ یہ سوال پوچھے کہ
 ”بابا!میرے دادا کی چِتّا کو کس نے آگ لگائی
 تو جواب آپ خود بیان کریں!
Feedback:peghaamnews@gmail.com
٭٭**٭٭

ہفتہ، 8 مارچ، 2008

اندرونی اور بیرونی خلفشاریاں

0 comments

اندرونی اور بیرونی خلفشاریاں
رحمان محمود خان

پچھلے ایک ڈیڑھ سال سے پاکستان اور پاکستانی عوام کو جس طرح "جلتی ہوئی ٹھنڈی آگ " میں جھونکا جا رہا ہے اس کا اندازہ پاکستان کی بھولی عوام کو نہ سہی لیکن سیاستدانوں اور حکمرانوں کو ضرور ہوچکاہے۔ملک جن مسائل سے دوچار ہے اور مزید جن گھمبیر مسائل میں گرفتار ہوتا جارہا ہے،اس تمام کیےدھرے میں اندرونی اور بیرونی قوّتیں کارفرما ہیں۔یہ طاقتیں پاکستان پر ایک ایسی جنگ مسّلط کروا رہی ہیں جس کا انجام نہایت بھیانک اور "سَرد ہولناکی" کے علاوہ کچھ نہیں!یہ "سَرد ہولناکی" کیا ہے؟ہماری غریب عوام جو بھوک ، ننگ اور اَفلاس کی طرف تیزی سے گامزن ہے'میں چند لوگ ایسے ہوں گے جو ملکی سیاست اور اندرونی وبیرونی خلفشاریوں پر نظر رکھے ہوئے ہوں گے جب کہ باقی ماندہ طبقہ تو علی ا لصبح کام پر نکلتے ہیں اور رات ڈھلے جب گھر لوٹتے ہیں تو ان کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ سوچ سکیں ،کسی بحث مباحثہ میں حصّہ لے سکیں یا پھر تجزیہ کرسکیں۔عوام کی توجّہ تقسیم کرنے کی خاطر ملک پر بے شمار ایشوز تھوپ دیے گئے ہیں۔ہماری غریب عوام کی توجّہ اِن ایشوز کی طرف ایسی مبذول ہوئی ہے کہ وہ اپنے دیرینہ مسائل( جو اِن کو "سیاسی ورثہ" میں ملتے چلے آرہے ہیں)کی طرف سے دھیان ہٹ گیا ہے۔پاکستان جو 1947عسے ہی نازک موڑ پر چل رہا ہے،اب خانہ جنگی کی طرف رخ کر رہا ہے۔یہ اندرونی و بیرونی طاقتیں ملک میں انتشار اور خانہ جنگی کی جو کیفیات پیدا کر رہی ہیں اس سے سیاستدانوں اور حکمرانوں نے نہیں بَل کہ صرف پاکستان کا محنت کش اورغریب طبقہ ہی نبردآزما ہوگا۔کیوں کہ یہ سَرد ہولناکی ملک کو دیمک کی طرح ' چٹم ' کر رہی ہے۔
18فروری کے انتخابات کے بعدنئی حکومت نے جو 100دن کا پیکج دیا اس کے پورا ہونے کے بعد بے شما رلکھا اور کہا جا چکا ہے،صرف یہی اِک حقیقت ہے کہ ان 100دنوں میں حکمرانوں نے عوام کے گرد مہنگائی کے پھندے کو مزید تنگ کیا ہے اور غربت کے مکمل 'خاتمے' کا وعدہ پورا کرنے کی طرف پیش رفت کرہے ہیں۔یہ حکومت نہ 60معزول ججز کوبحال کروا سکی ہے اور نہ صدر کا مواخذہ کر سکی ہے،یہ حکومت نہ بے نظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کرواسکی ہے اور نہ ڈاکٹر عبدالقدیر کی نظر بندی ختم کروا سکی ہے،زرداری حکومت نہ ان بے گناہوں کو بازیاب کروا سکی ہے اور نہ ہی مہنگائی کا اژدھا قابو کرسکی ہے۔یہ تمام اس موجودہ حکومت کے وعدے بے مِثل تھے۔حکمران صرف اور صرف ہجوم میں دعوے ہی کر سکتے ہیں اور کچھ نہیں!جب کہ ہماری بھولی عوام ابھی بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ان آزمائے ہوئے لوگوں ہی میں سے کوئی آئے گا اور الٰہ دین کے چراغ سے ان کے دکھوں کا مداوا کرے گالیکن ہمارے سیاستدان ''یہ کریں گے 'وہ کریں گے'' کے راگ آلاپ رہےہیں مگر میرے بزرگ اور ریٹائر سیاستدانوں یہ وقت بلند و بانگ دعووں کا نہیں بلکہ عملی کام کرنے کا ہے۔
میں یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کروں گا کہ نیٹو فورسز پاک افغان سرحد پر جو نایاب خون کی ہولی کھیلنے میں مصروفِ عمل ہے' اس میں کسی اور کا نہیں بل کہ صِرف پاکستان کا ایسا نقصان ہے کہ ہماری عوام چاہتے ہوئے بھی اس جنگ سے بیس تیس سال تک نہیں نکل سکتے۔اس حقیقت کا ادراک عوام کو نہ سہی مگر سیاستدانوں ،حکمرانوں،بیوروکریٹس اور اربابِ اختیارکو ضرور ہے۔مگر یہ لوگ پھر بھی امریکیوں اور اس کے اتحادیوں کو مسلسل کہہ رہے ہیں کہ ''لگے رہو منّا بھائی''۔
میں قارئین کو یہ باور کرانا چاہتا ہوں کہ پاکستان اور پاکستانی قوم کچھ عرصے میں اس سَرد ہولناکی سے نکل کر خانہ جنگی کی طرف گامزن ہیں۔اگر اس بیماری کا علاج نہ کیا گیاتو یہ مرض ناسور بن کر وطن ِعزیز کی رگ و پہ میں سرایت کر جائے گا۔اس لیے ابھی بھی جاگنے کا وقت ہے،جاگ جاؤ!ورنہ آئندہ آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔
پاکستان اِس وقت جن گھمبیر مسائل سے دوچار ہے'ان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی ،صحت کی سہولتوں کا فقدان ، پٹرولیم مصنوعات میں روز بروز اضافہ ، بے روز گاری ، لوڈ شیڈنگ ، بجلی، پانی اور گیس کی عَدم فراہمی ، صنعتوں اور کارخانوں کی ہڑتالیں وغیرہ وغیرہ۔اس کے علاوہ پاکستانی فوج ، کا افغان بارڈر اور شمالی و قبائلی علاقہ جات میں اپنے ہی لوگوں کے خلاف آپریشن سرِفہرست ہیں۔جب کہ دوسری طرف اندرونی و بیرونی خلفشاریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارتی فوج نے بھی ہلکا پھلکا "مشقی محاذ" کھول لیا ہے،اس کے علاوہ بھارت نے پاکستانی معیشت کو مزید نقصان پہنچانے اور دِگرگوں حالات پیدا کرنے کے لیے پاکستانی پانیوں پر56نئے ڈیم بنانے کا ایک منصوبہ تشکیل دیا ہے۔تھوڑا سا مزید آگے بڑھیں تو پاکستان کے دو اہم صوبے سرحد اور بلوچستان مسلسل حالتِ جنگ میں مبتلا ہیں۔
افواجِ پاکستان، جن کو عوام اپنے سر آنکھوں پر بٹھاتی تھی،جن کی بلائیں لیناغریب لوگ اپنا نصب العین سمجھتے تھے۔آج ان ہی کے ذریعے امریکی امداد کو "دہشت گردی کے خلاف جنگ" کے نام پر استعمال کیا جارہا ہے اور اپنے ہی لوگوں کو مروایا جا رہا ہے۔پاکستان کے نام نہاد سیاستدانوں اور آمریت پسند حکمرانوں نے یہ تمام کام امریکہ اور اُس کے حواریوں کو خوش کرنے کے لیے کر تو دیےہیں لیکن اِن تمام معاملات کا موازنہ کریں تو کیا یہ سب کچھ صوبائیت پرستی کی جنگ نہیں بنتی جا رہی؟عوام میں صبر و برداشت کا مادہ ختم ہوتا جارہا ہے۔جب عوام کی بنیادی ضروریات ہی پوری نہیں ہوں گی تو وہ لازماً لوٹ کھسوٹ کا راستہ اپنائیں گے'اِس طرح کرپشن بڑھے گی اور جرائم میں اضافہ ہوگا۔
پاکستانی عوام جو کبھی غیّور ، وفا شعار اور محنتی کہلاتی تھی 'آج ان حکمرانوں اور سیاستدانوں کے ہاتھوں کھلونا بنی ہوئی ہے۔1947عسے 1971ع تک اور 1971عسے تاحال پاکستان نازک موڑ پر ہی سفر کر رہا ہے۔امریکہ وغیرہ پاکستان اور پاکستانی حکمرانوں کو ڈالروں کے'لشکارے'دِکھا کر اپنے مفادات کے لیےاستعمال کر رہا ہے اور ان ہی کے ذریعے ہمارے غریب طبقے پر خانہ جنگی مسلّط کروا رہا ہے۔پاکستان کو افغانستان بنانے کی حتٰی الامکان کوشش کی جا رہی ہے۔دوسری طرف ہمارے سیاستدان ،حکمران اور اَربابِ اِختیار اپنے مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کر رہے ہیں'کوئی لانگ مارچ کی بات کرتا ہے تو کوئی احتجاج اور دھرنوں کی۔ عوامی مسائل کو حل کرنے،با مقصد اور عملی کام کی طرف اِن کی توّجہ مستقل ناپید ہے۔ اِس کے برعکس تیسری طرف عوام بنیادی ضروریات اور دو وقت کی روٹی پورا کرنے کے چکر میں پھنسی ہوئی ہے۔اِس مثلّث(Triangle) میں صرف اور صرف عوام کا ستیاناس ہو رہا ہے۔
پاکستان میں یہ اندرونی و بیرونی سازشی عناصر جن کے عَمل اور سوچ دراصل ایک ہی ہے'ایک بار پھر پاکستان کو 1971عکے موڑ پر لا کھڑا کررہی ہیں جب کہ ہمارے حکمران خود سے کوئی قدم اُٹھانے کی بجائے غیروں کی طرف ہاتھ اور نگاہ پھیلائے بیٹھے ہیں۔اِسلامی دنیا کا واحد ایٹمی ملک ہونے کے باوجود کشکول پکڑنا ہمارے حکمرانوں کی عادت و فطرت بن چکی ہے 'لوٹ کھسوٹ ان کے خون میں رَچ بس چکی ہے۔
آج ہم سب کو سوچنا چاہیےکہ آخر کب یہ اندرونی اور بیرونی خلفشاریاں ختم ہوں گی؟اور ہم کب تک غیروں کے آگے ہاتھ پھیلاتے رہیں گے؟ علامہ اقبال نے اس روز کے لیےتو وہ خواب نہیں دیکھا تھا!

Feedback:peghaamnews@gmail.com
٭٭**٭٭

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *