ہفتہ، 11 دسمبر، 2010

ناخواندگی اور ۔۔۔۔ فیچر

2 comments
3Rناخواندگی اور
تحریر: رحمان محمود خان

دنیا نت نئے چیلنج سے دوچار ہے اور پاکستان کے بھی حالات ایسے ہیں کہ مضبوط اور باوقار ملک کے لیے اچھے اور روشن مستقبل کی ضرورت ہے،کسی قوم کا انحصار اور اعتماد نوجوان نسل پر ہوتا ہے۔اگر نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت اور اخلاقی تربیت احسن انداز سے ہو رہی ہے تو وہ اس قوم کی کامیابی کی کنجی ہے۔تعلیم ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جو حقائق اور اصلیت سے آگاہ کرتا ہے اور باشعور بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
پاکستان سمیت دنیا کی ہر قوم اور ملک کا خواندگی کا معیار مختلف ہے۔معیارِخواندگی کا اندازہ اس قوم کی معاشرتی اور اقتصادی ترقی سے مربوط ہونا ضروری ہے۔مثال کے طور پر روس اور امرکا میں وہ افراد جو پانچویں جماعت پاس طالبِ علم کے لیول کے مطابق پڑھ سکیں،عبارت کا مفہوم جان سکیں اور خیالات کو جان سکیں اور اپنے خیالات کو مجتمع کرکے کاغذ پر قلم بند کر سکیں(لکھ سکیں)‘انہیں خواندہ کہا جاتا ہے۔اسی طرح پاکستان میں خواندگی کا معیار 1981ع میں حکومتِ وقت نے مردم شماری سے قبل مقرر کیا جس میں کہا گیا کہ”کسی اخبار میں تحریر شدہ عبارت کو پڑھنا اور سادہ خط لکھنا خواندگی کے زمرے میں آتا ہے۔
پاکستان میں جب مردم شماری ہوتی ہے تو افراد کی گنتی کرکے خواندگی کا معیار مقرر کےا جاتا ہے،جس کی حالیہ تازہ مثال بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام میں غربت سروے کے دوران کی جانے والی مردم شماری ہے۔راقم کے خیال میں خواندگی سے مرادافراد کی پڑھنے لکھنے کی ابتدائی صلاحیت و قابلیت ہےلیکن اس کے برعکس ایک شخص جو محض خط پڑھ سکتا ہے اوراس میں لکھنے کی صلاحیت محض حروفِ تہجی کو توڑ توڑ کر لکھنا ہے تو کیا ہم کہیں گے کہ یہ شخص خواندہ ہےکہ نہیں؟اس کا جواب ”ناخواندہ“ہے۔یہ شخص خواندگی اور ناخواندگی کے درمیان حائل ہے۔خواندگی کی تعریف کو مزید واضح کرنےکےلیےہم یونیسکوکے مطابق"خواندہ وہ شخص ہے جو کسی بھی زبان میں عبارت یا تحریر کا ایک پیراگراف سمجھ بوجھ کے ساتھ پڑھے اور اسے لکھنے کے ساتھ ساتھ بیان بھی کر سکے تو وہ شخص خواندہ کہلائے گا۔"
اقوام کی ترقی کا راز تعلیم کا مرہونِ منت ہوتا ہے جس ملک کے افراد زیادہ تعلیم یافتہ ہوں اور تعلیمی قابلیت کے ساتھ ساتھ شعور کی باصلاحیت دولت سے مالا مال ہوںتو وہ قوم اتنی ہی ترقی کے راستے پر گامزن ہوگی۔ سری لنکا اور چین‘پاکستان کے بعد آزاد ہوئے جب کہ جاپان پر تاریخ کی بد ترین انسانی حقوق کی پامالی کرتے ہوئے ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے گئے لیکن ان تینوں ممالک نے ناصرف اپنے اپنے ملک کو استحکام بخشا بل کہ تعلیم اورٹیکنالوجی میں کئی ممالک کو میدان بدر کر گئے۔پاکستان کا شمار ان ممالک کے عشرِعشیر بھی نہیں ہوا کیوں کہ جب سے پاکستان آزاد ہوااس کے کم از کم تین مسائل تعلیمی لحاظ سے درپیش ہیں جن میں سر فہرست،
۔ناخواندگی1
۔معیارِتعلیم2
۔تعلیم ِنسواں3
اِن تینوں مسائل پر سیرِحاصل بحث ممکن ہے لیکن اصل اور حقیقی مسئلہ ناخواندگی کا ہے چاہے مردکی ہویاعورت کی۔پاکستان کا شماردنیاکے ترقی پزیرممالک میں ہوتا ہے،اس لیے تقریباًیہاں ہرمیدان میں بہت زیادہ اور بَروقت کام کرنے کی ضرورت ہے۔تعلیمی لحاظ سے پاکستان دوسرے ایشیائی ممالک سے بہت پیچھے ہےجن کی وجہ وہ محرکات ہیں جس نے وطن ِعزیز کو ترقی پزیر بنانے میں مستقل کردار ادا کیا،جن میں
۔ غربت1
۔ آبادی میں اضافہ2
۔ تعلیمی اخراجات3
۔ معیاری سکولوں کی کمی اور4
۔ والدین کا رویہ شامل ہیں۔5
پاکستان کا زیادہ تر غریب طبقہ جو اکثریت پر مشتمل ہے‘اخراجات برداشت نہیں کرسکتے۔والدین قلیل آمدن اور محدود وسائل کے باعث اپنےبچوں پرتعلیمی میدان میں سرمایہ کاری کرنے سے گریزاں ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق5سے9سال کی عمر کے تقریباً54لاکھ بچے سکول میں داخل نہیں ہوتے اور ابتدائی تعلیم سے محروم رہتے ہیں۔جب کہ ایک سروے کے مطابق9سے12سال کی عمر کے82لاکھ بچے معیارِتعلیم سے اکتاہٹ یا گھریلو مجبوریوں کی بنا پر تعلیم کو خیرباد کہہ کر اپنے والدین کا ہاتھ بٹانا شروع کردیتے ہیں۔
ملک میں سالانہ شرحِ خواندگی میں اضافہ1.3%فیصد ہے‘جب کہ آبادی میں اضافہ اس سے دوگنا سے بھی زیادہ3.5%فیصد ہے۔تعلیمی سہولتیں اِس کے مقابلے میں انتہائی کم ہیں اور اس تناسب سے تعلیمی ماہرین سونے پہ سہاگہ کے مصداق بجٹ میں کچھ یا زیادہ ہیرا پھیری بھی کر دیتے ہیں۔اقوام ِمتحدہ کے ادارےیونیسکو کی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ ترقی پزیرممالک اپنی قومی آمدنی کا 4%فیصد تعلیم پرخرچ کریںلیکن وطنِ عزیز کے حالات مختلف ہیں۔یہاں تقریباً2%فیصدتعلیم پرخرچ کیا جاتاہےجس میں سے بھی 07%فیصد خوردبرد کر دیتے ہیں۔
ملک میں معیاری سکولوں کی کمی ہے،یوں تو ہر گلی محلہ ،چوراہے پر خوبصورت انگلش کے جلی حروف میں سکولوں کے نام تو ملتے ہیں لیکن وہ ”اونچی دکان پھیکا پکوان“کے مصداق محض وقت گزاری اور رقم بٹوری کی کارگزاری ہوتی ہے۔کاغذوں اور بینروں کے پیٹ بھرنے کا سلسلہ اور رجسٹریشن کے نام پر50,50(ففٹی ففٹی)کا ایک انداز ہوتا ہے۔
ایک اور وجہ والدین کا رویہ ہے چونکہ والدین خود پڑھے لکھے نہیں ہوتے،تعلیم کی افادیت سے عاری ہونے کے باعث سنجیدہ رویہ نہیں رکھتے۔اس لیے بھی وہ بچوں کو سکول بھیج کر وقت کا ضیاع کرنے سے اجتناب برتتے ہیں۔چند روز قبل راقم کی سفر کے دوران تین افراد سے ملاقات ہوئی جو مزدوری کے لیے جارہے تھے اور ان کے ہمراہ دو بچے جو کہ سردی سے ٹھٹھر رہے تھے،سے پوچھا کہ بچوں کو پڑھاتے لکھاتے کیوں نہیں تو ان کا جواب تھا کہ ہمارے دو دو بچے ہیں،دو وقت کی روٹی اور اخراجات پورے نہیں ہوتے،اپنے بچوں کے لیے گرم کپڑے اور دوائی لینے کے پیسے نہیں بچتے،گھر کا کوئی فرد بیمار ہو جائے تو چیک اپ کروانا دوبھر ہو جاتا ہے ‘ایسے میں بچوں کو پڑھانا ممکن نہیں اور یہ تو مذاق لگتا ہے۔راقم کو محسوس ہوا کہ ان سے یہ بات پوچھنا ان کی طبعیت پر گراں گزرا'کیوں کہ دوسرے مسافر بھی یہ بات سن رہے تھے،بہرحال اس کے بعد چہ میگوئیوں کا ایک نا تھمنے والا سلسلہ شرع ہوگیا۔حقیقت بھی یہی ہے کہ جب گھر میں دو وقت کی روٹی پوری کرنا مشکل ہو تو ملک کا غریب طبقہ اپنے بچوں کو تعلیم کیسے دلوائیں؟ان افراد سےگفتگو میں حالات کی کسم پرسی پنہاں تھی۔ وہ بھی چاہتے تھے کہ ان کے بچے بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں لیکن یہاں بتانا مقصود ہے کہ کچھ والدین ان پڑھ ہونے کے باوجود تعلیم کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور کچھ والدین تعلیم کی سمجھ بوجھ سے عاری ہونے کی وجہ سے آبادی میں محض اس لیے اضافے کو بہتر گردانتے ہیں کیونکہ زیادہ بچے ہوں گے تو کچھ 9,8 سال کی عمر میں مختلف جگہوں‘ ورکشاپ‘ دکانوں وغیرہ پر روزانہ کچھ نہ کچھ تو کما کر لائیں گے۔ ناخواندگی کی یہ بھی ایک وجہ ہے جس کے باعث شرح خواندگی میں اضافے کی بجائے ناخواندگی کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ خواندگی کو 3-آرسے بھی موسوم کیا جاتا ہے کیونکہ خواندگی ان مہارتوں کے مجموعے کا نام ہے۔

Reading (R)۔ پڑھنا ،1
Writing (R)۔ لکھنا،2
اور
Arithmetic (R) حساب کتاب،گنتی وغیرہ،3
چونکہ ان تینوں مہارتوں میں مشترک ہے، اسی لیے خواندگی کو انگریزی میں3 آربھی کہتے ہیں۔3R
ممالک کے لحاظ سے سب سے کم شرح خواندگی پاکستان کی ہے جو کہ 51.6% فی صد بنتی ہے جب کہ سب سے زیادہ شرح خواندگی کے لحاظ سے آسٹریلیا ہے جس کی شرح خواندگی 99.5% ہے۔ مالدیپ‘ جنوبی کوریا اور امریکہ کی شرح خواندگی بالترتیب 98.9%‘ 98.9% اور 98.5% ہے۔ اس کے بعد ایران 92.9%‘ سری لنکا 92%‘ ملائیشیا 85.6‘ چین 84.3%‘ بنگلہ دیش 65%‘ بھوٹان 54%‘ بھارت 57% ‘ نیپال 51% کے ساتھ سرفہرست ہے۔ اس اندازے سے معلوم ہوتا ہے کہ وطن عزیز کو شرح خواندگی بڑھانے کے لیے کافی زیادہ اقدامات کرنا پڑیں گے لیکن ان اقدامات سے اس وقت تک کچھ حاصل نہ ہوگا جب تک بنیادی غلطیاں دور کرکے تعلیمی ڈھانچہ بہتر نہیں بنایا جاتا۔ اگر ہم اپنا نظام تعلیم انگریزوں کا بنایا ہوا اپنا سکتے ہیں تو جن ممالک کی شرح خواندگی زیادہ ہے ان کے نظام تعلیم اور وطن عزیز کے نظام تعلیم کا موازنہ کرکے بنیاد کو درست کرنے میں بھی کوئی حرج ہے لیکن اس کے ساتھ حکومت کو چاہیے کہ نمائشی سرگرمیاںمیں بے جا اسراف کرنے کی بجائے عملی اقدامات کریں اور ملک گیرسطح پر تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے مہم کا آغاز کریں۔اس مہم کی تجاویزمیں اپنے آئندہ فیچرمیں قارئین کی نظر کروں گا۔
تحریر : رحمان محمود خان
Feedback:peghaamnews@gmail.com
٭٭**٭٭

2 comments:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *