منگل، 1 نومبر، 2011

میاں صاحب جان دیو۔ ۔ ۔ رپورٹ

0 comments
سیاست ۔۔۔کالم
یکم نومبر2011عبروزمنگل
میاں صاحب جان دیو ہن ساڈی واری آن دیو
رپورٹ: رحمان محمودخان

عمران خان کا مینارِپاکستان میں جلسہءعام سےخطاب
عمران خان نے سول نافرمانی کی دھمکی دیدی‘نواز،زرداری اب تبدیلی نہیں روک سکتے، عمران خان

پولیس کو غیر سیاسی کرنے کے بعد تھانیدار کا الیکشن ہوا کرے گا جب تھانیدار منتخب ہو کر آئے گا تو وہ عوام پر ظلم نہیں کرسکے گا،ہم نے اپنے گاؤں کے لوگوں کو بھی آزاد کرنا ہے۔بلدیاتی نظام لے کر آئیں گے۔گاؤں کی سطح پر لوگوں کو مفت انصاف دلا کر دکھائیں گے۔ ہم بلدیاتی پنچائتوں کے تحت ہیلتھ یونٹ اور پرائمری سکول بنائیں گے ۔
لاہور میں تحریک انصاف کے زیراہتمام مینار پاکستان کی گراؤنڈ میں پُرہجوم جلسہ ہوا جس میں عوام اور کارکنوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی جن کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ جلسہ میں خواتین، نوجوانوں اور بچوں کی بھی بڑی تعداد نے شرکت کی جنھوں نے پرجوش نعرے لگائے۔ دیگر چھوٹے بڑے شہروں اور صوبوں سے بھی کارکنوں نے شرکت کی۔ جلسہ گاہ میں ہر طرف تحریک انصاف کے جھنڈے نظر آرہے تھے، قومی ترانے بجائے جا رہے تھے۔ گراؤنڈ میں تین بڑی سکرینیں لگائی گئی تھیں۔ تحریک انصاف نے مسلم لیگ (ن) کے گڑھ لاہور میں طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ پنڈال میں موجود لوگ مختلف نعرے لگاتے رہے۔اس موقع پر ڈاکٹر عارف علوی‘ میاں محمد اظہر‘ حامد خان‘ ایڈمرل (ر) جاوید اقبال‘ اعجاز چودھری‘ مجیب ہارون‘ نذر بلوچ‘ احسن رشید‘ میاں محمود الرشید‘ ڈاکٹر یاسمین راشد‘ قاسم سوری‘ نعیم الحق‘ سلونی بخاری‘ فرخ حبیب و دیگر نے خطاب کیا۔مقررین کے خطاب کے دوران پاکستان کے مقبول گلوکاروں اور مشہور میوزک بینڈز نے اپنے اپنے انقلابی گیت گا کرحاضرین بالخصوص نوجوانوں کے دِلوں کو گرما دیا۔جلسہ عام میں لوگوںبالخصوص نوجوانوںکی کثیرتعداد نے شرکت کی اور 4سال کی عمر سے لے کر 40سال تک کے لوگوں کی شرکت قابلِ ستایش تھی،40سال سے بڑی عمر کے لوگوں کی تعداد تقریباً نہ ہونے کے برابر تھی۔جس سے اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں کہ پاکستان تحریکِ انصاف نوجوانوں کی مقبول سیاسی جماعت بَن گئی ہے۔
 جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے تحریک انصاف کے مرکزی سینئر نائب صدر حامد خان نے کہا کہ پاکستان میں تبدیلی آنے والی ہے ہم عمران خان کی قیادت میں چوروں، ٹھگوں سے ملک کو نجات دلا دیں گے۔ ہر منصب پر جعلساز بیٹھا ہے کہیں جعلی وصیت والے اور کہیں جعلی ڈگریوں والے۔ تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عارف علوی نے کہاکہ تحریک انصاف ملک کو اسلامی فلاحی ریاست بنائے گی۔اگر عمران خان جلسے کے شرکاءکو گورنر ہاوس، وزیراعلیٰ ہاؤس کی طرف لے جائیں تو حکومت گر جائے گی۔ تحریک انصاف کے مرکزی نائب صدر اعجاز چودھری نے کہاکہ لاہور پاکستان کا دل ہے جو پوری صحت مندی سے دھڑک رہا ہے۔ انتخابات سے پہلے انقلاب برپا ہو چکا ہے۔ ظالموں ڈاکوؤں سے اقتدار چھیننا ہے، چھین لو چھین لو اقتدار چھین لوکے جملے پر حاضرین نے عمران خان ،عمران خان کے نعرے لگائے۔ پاکستان کی ساری دولت کو لائے گا تو شرکاءنے جواب دیا عمران خان۔ مرکزی نائب صدر ایڈمرل (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ پاکستان کو فقیرستان بنا دیا گیا ہے، ڈالروں کی خاطر ملک کو بیچ دیا گیا، روزانہ خودکشیاں ہورہی ہیں، قائدنے جو خواب دیکھا تھا ان کی تعبیر عمران خان کریں گے۔ مرکزی نائب صدر مجیب ہارون نے کہاکہ انقلاب پیدا ہو چکا ہے۔ مرکزی جوائنٹ سیکرٹری نذر بلوچ نے کہاکہ لاہور کے لوگوں کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر سے ہمیں حوصلہ ملا ہے۔ تحریک انصاف پنجاب کے صدر احسن رشید نے کہاکہ پنجاب برصغیر کو اناج دیتا ہے آج مائیں خودکشی کر رہی ہیں، پنجاب کو یہ صورتحال قبول نہیں اور پنجاب اب تبدیلی چاہتا ہے۔ تحریک انصاف لاہور ریجن کے صدر میاں محمود الرشید نے کہا کہ جلسہ عام میں پانچ لاکھ لوگوں نے شرکت کی۔ تخت لاہور پرویز رشید کے آقاؤں نہیں عمران خان کا ہے۔ زرداری، شریفوں اور چودھریوں پر مینار پاکستان پر عوام نے عدم اعتماد کر دیا جو ان سب سے استعفوں کا مطالبہ کرتے ہیں۔ تحریک انصاف کے مرکزی رہنما میاں اظہر نے کہا کہ 15برس ہوئے تحریک انصاف کی بنیاد رکھی گئی آج یہ عروج پر پہنچ چکی ہے۔ آج لاہور جاگ اٹھا ہے اور پھر سیاسی تبدیلی آتی ہے۔ یہ تبدیلی نوشتہ دیوار ہے۔ لاہورئیے کسی کے زرخرید غلام نہیں، لاہورئیے آئندہ برسوں میں سیاسی تاریخ پلٹ کر رکھ دیں گے۔ عمران خان اندھیرے میں روشنی کی کرن بن کر ابھرے ہیں اور وہ عوام کے تمام مسائل حل کرے گا۔ تحریک انصاف شعبہ خواتین کی صدر فوزیہ قصوری نے کہا کہ پاکستان میں گلوکار اور اداکار بہت ہیں مگر لیڈر صرف عمران خان ہیں۔ تحریک انصاف شعبہ خواتین پنجاب کی صدر سلونی بخاری نے کہا کہ آج عوام نے بتا دیا کہ پاکستان زرداری کا ہے نہ نوازشریف کا بلکہ یہ پاکستانیوں کا ہے۔آپ کو رحمن ملک، شہباز شریف یا نوازشریف چاہیے تو شرکائے جلسہ نے یک زبان ہو کر کہا کہ نہیں۔ ہم سب اسلام آباد جائیں گے اور حکمرانوں کو ہٹائیں گے۔ تحریک انصاف پنجاب کی جنرل سیکرٹری یاسمین راشد نے کہا کہ میں خدا کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے۔ شریف برادران اور آصف زرداری خود دیکھ لیں کہ آج پاکستان کا سارا نوجوان عمران خان کے ساتھ ہے۔ صوبائی صدر خیبر پی کے اسد قیصر نے کہا کہ عمران خان کو یہ عظیم الشان جلسہ مبارک ہو۔ تحریک انصاف بلوچستان کے صدر قاسم سوری نے کہا کہ زندہ دلان لاہور کو مبارکباد دیتا ہوں یہ عمران کا شہر ہے کاغذی شیروں کا نہیں۔ تحریک انصاف سندھ کے صدر نعیم الحق نے کہاکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ملک سے غربت کی لعنت کو ختم کر دیں گے۔ تحریک انصاف کے رہنما ظہیر عباس نے کہا کہ یہ وہ تاریخی اور مقدس مقام ہے جہاں قائداعظمؒ نے قرارداد پاکستان منظور کی تھی۔ لاہور کے حکمرانوں کو بتانا چاہتا ہوں۔ رانا ثنااللہ، صدیق الفاروق جسے گیند بلے کی سیاست کہتے ہیں وہ دیکھ لیں کہ تمہارے لیڈر اکبر اعظم ہیں تو عمران خان شیر شاہ سوری ہے۔ تمہارے قائد کے اثاثے باہر اور میرے قائد کے ملک میں ہیں۔ استعفٰی دیدو یہ جلسہ تم پر عدم اعتماد ہے۔ ڈاکٹر مراد جنرل سیکرٹری لاہور نے کہا یہ وہی مقام ہے جہاں 71 برس قبل پاکستان کا خواب دیکھا گیا تھا۔ آج عمران خان کی سرپرستی میں ہم نے پاکستان کو بچانا ہے۔ صدر آئی ایس ایف پنجاب فرح حبیب نے کہا ہمیں مجبور کیا گیا یہاں آنے پر۔ آج انقلاب برپا کرنے کا دن ہے آئیں ہاتھ اٹھا کر عہد کریں کہ آپ اس ملک کے حقیقی پاسبان ہیں اور اس ارض کی حفاظت کریں گے۔ آپ حقیقی معنوں میں پاکستان کا مستقبل ہیں۔ گوجرانوالہ سے نمائندہ خصوصی کے مطابق تحریک انصاف کے ضلعی راہنما رانا نعیم الرحمن خاں نے مینار پاکستان لاہور میں جلسہ عام کیلیے قافلہ کی روانگی کے وقت کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قائد انقلاب کی سوچ کو سلام کرتے ہیں۔ ضلعی سیکرٹری جنرل انجم اقبال وڑائچ، شیخ نعیم احمد ہاشمی، فرید اقبال اعوان، صدر تحصیل نوشہرہ ورکاں چودھری اکرام الحق گوہیر، آرگنائزر حلقہ پی پی 92 ڈاکٹر جمشید اقبال، آرگنائزر حلقہ پی پی 99 چودھری ریاست علی کمبوہ، آرگنائزر حلقہ پی پی 101 خالد نذیر مصطفائی، آرگنائزر حلقہ پی پی 102 جاوید جالب ایڈووکیٹ، ظہیر احمد ضیاءایڈووکیٹ، عطاءالحق بھٹی، ملک محمد حسین، سیٹلائٹ ٹاؤن سے میاں عامر، شہزاد احمد چیمہ، عمران بیگ، بشارت اعوان، شیخ ارشاد احمد ہاشمی، ریحان شاہ، پرنس محمد افضل، رانا شعیب، رانا نعیم اکبر، میاں جاوید، ملک رمضان، چودھری ریاست بسرائ، حامد قمر، راجہ ذوالفقار، مون مرزا، سیٹھ لقمان، رانا معاذ و دیگر نے شرکت کی۔ شیخوپورہ سے نامہ نگار خصوصی کے مطابق جلسہ کے لیے شیخوپورہ سے متعدد قافلے روانہ ہوئے، بڑے قافلہ کی قیادت ضلعی صدر ڈاکٹر اشرف گھمن جنرل سیکرٹری منظور آصف روک، شاہ نواز، انیس ریاست ورک یوتھ ونگ کے ضلعی صدر وسیم باری، حافظ مدثر مصطفی نے کی، فاروق آباد سے چودھری شفقت علی گجر اور چودھری مزمل علی گجر کی قیادت میں 200گاڑیوں کا قافلہ لاہور گیا ان کے ساتھ تنویر بھٹی، ذوالفقار، اسد کھرل، رائے شہزاد چودھری محمد وارث، چودھری طاہر سعید، عباس علی چدھڑ، ملک عصمت شامل تھے۔ لیبر ونگ کے رہنما راشد منیر سابق رئیس بلدیہ میاں شفیق اشرفی، نوید حسین واہلہ، سجاد حیدر رندھاوا اور چودھری مسعود آفتاب بسرا،زوار حسین گھمن کی طرف سے قافلے لاہور گئے۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان گزشتہ روز مینار پاکستان پر پاکستان تحریک انصاف کے بہت بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں 180اَرب ٹن کوئلہ ہے۔ ایران،عراق اور سعودی عرب سے زیادہ بجلی ہے‘ پاکستان میں 60 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہو سکتی ہے‘ اتنی بجلی پاکستان میں نہیں بنائی جائیگی کیونکہ اس میں کمیشن نہیں ملے گا‘ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے‘ کرپشن کی وجہ سے ملک کو 3 ہزار ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ یہ کرپشن تحریک انصاف ختم کریگی‘ تحریک انصاف کرپشن اور ٹیکس چوری ختم کرکے دکھائے گی۔ قانون بنائیں گے کہ اثاثے ظاہر کیے بغیر کوئی سیاست نہیں کر سکتا‘ جس دن اثاثے ظاہر کیے جائیں گے دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائیگا‘ ہم نے 15 سال کوشش کی کہ ملک میں تبدیلی آئے اور دو جماعتوں کی پارٹنرشپ توڑ دیں آج اللہ نے ہماری آواز سن لی ہے۔ نوجوانو میری بہنوں تحریک انصاف کے کارکنوں‘ آئی ایس ایف اور یوتھ پیپلز پارٹی اور نواز شریف کے جو کارکن یہاں ہیں انہیں بھی مبارکباد دیتا ہوں کہ آپ نے اپنا قبلہ درست کر لیا‘ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ میں ٹیکسی ڈرائیوروں’ ریڑھی بانوں ‘ تانگے والوں ‘ مزدوروں ‘ کسانوں ‘ سرکاری مزدوروں جو چھپ چھپ کر آئے ہیں ‘ پولیس والوں ‘ اپنی ماں بہنوں ‘ بزرگوں ‘نوجوانوں اور خصوصاً میڈیا والوں کو خوش آمدید کہتا ہوں او رسب سے زیادہ خراج تحسین میڈیا کو دینا چاہتا ہوں کہ آپ نے پاکستانیوں کو جگا دیا‘ لاہوریوں کو جگا دیا‘ جدھر آج ہم کھڑے ہیں ہم یہاں سے نئے پاکستان کا آغاز کر رہے ہیں۔ پاکستان کا ایک ہی سب سے بڑا لیڈر تھا وہ حضرت قائداعظمؒ تھے انہوں نے 1940ءمیں یہاں سے ہی تحریک پاکستان کا آغاز کیا‘ پھر میرے نظریاتی لیڈر علامہ اقبالؒ کا بھی یہی کہنا تھا کہ لاہور کو جیتنا بہت ضروری ہے کامیابی کے لیے حضرت داتا گنج بخشؒ کو کیسے بھول سکتا ہوں۔ وہ افغانستان بیٹھے تھے کہ اللہ نے انہیں لاہور پہنچنے کے لیے کہا اور یہاں سے اسلام کا پرچم بلند کرایا۔ اب نواز شریف اور زرداری اس طوفان کو نہیں روک سکتے۔ رائے ونڈ والوں اور اسلام آباد والوں سن لو یہ سیلاب نہیں سونامی آ رہی ہے جو اس کے سامنے کھڑا ہوا وہ بہہ جائے گا۔ پاکستان کے نوجوانوں کو پارٹنر شپ توڑنی آتی ہے ایک ان سوئنگر آنے والا ہے یہ پہلا گیند ہو گا جو دونوں بیٹسمینوں کی وکٹیں اڑا دے گا۔ آصف زرداری تم نے بھٹو کا نام استعمال کرکے کتنا ظلم کیا کہاں ذوالفقار علی بھٹو اور کہاں زرداری‘ بھٹو نیشنلسٹ تھا وہ امپیریلزم (سرمایہ دارانہ نظام)کے خلاف تھا اس نے روٹی کپڑا مکان کا نعرہ دیا زرداری تم نے کمال کر دیا روٹی کپڑا تو بعد کی بات ہے آپ نے تو16000 لوگوں کو خودکشی پر مجبور کر دیا۔ امریکہ میں بیٹھے پاکستانی سفیر کو جو درحقیقت امریکی سفیر ہی ہے کو خط دیا گیا کہ امریکیوں سے کہو مجھے پاکستانی فوج سے بچا لو میں آپ کی خدمت اچھی طرح نہیں کر سکتا میں اپنے جنرل لے آؤں گا اور آپ کے جوتے پالش کروں گا انہوں نے کہا کہ میاں صاحب پہلے خدا کے واسطہ یہ بتاو پرسوں تم نے یہ کیا پٹواریوں کا جلسہ کیا اگر جلسہ کرنا تھا تو شیری دکھانی تھی یہ گیدڑوں کا کیا جلسہ کیا۔ آپ مچھروں کا تو مقابلہ نہیں کر سکتے‘ زرداری کا کیا مقابلہ کریں گے۔ شہروں میں لوڈشیڈنگ کے باعث نوجوان پڑھ نہیں سکتے فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں ملک تیزی سے اندھیرے کی طرف جا رہا ہے‘ تحریک انصاف برسراقتدار آ کر سب سے پہلے واپڈا کے تمام جنریشن پلانٹ جو 25 فیصد چل رہے ہیں انہیں 70 فیصد تک پہنچا دیں گے ہمیں لوڈشیڈنگ نہیں کرنا پڑے گی۔ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے اس کی وجہ سے آج ہم امریکہ کی غلامی کر رہے ہیں‘ ٹیکس چوری اور کرپشن سے پاکستان کو ہر سال 3000 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے یہ چوری ہم ختم کریں گے۔ ہم ان سے پوچھیں گے کہ آپ ارب پتی کیسے بن گئے۔ ایک وزیر کہتا ہے مجھے نہیں معلوم کہ میرے اکاؤنٹ میں 4 کروڑ روپیہ کہاں سے آ گیا۔ سیا ستدانوں کا پیسہ بیرون ملک کیوں پڑا ہے۔ زرداری تو کبھی کبھی پاکستان کا دورہ کرتے ہیں ہم انشاءاللہ تمام ٹیکس جمع کرکے دکھائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ عوام کا مقابلہ نہ سب سے بڑی بیماری زرداری کر سکتا ہے اور نہ ہی رائیونڈ کا سرکس کا شیر۔انہوں نے کہا کہ ہم کرپشن کا خاتمہ کرکے دکھائیں گے ہم تمام بڑے بڑے مگرمچھوں کو کٹہرے میں لائیں گے۔ سوئس بنکوں میں پاکستانیوں کا 100 ارب ڈالر پڑا ہے۔ پاکستان کے ذمہ غیر ملکی قرضہ 60 ارب ڈالر ہے۔ انشاءاللہ ہم یہ پیسہ واپس لا کر دکھائیں گے۔ جہاں پٹواری ہوں گے وہاں قبضہ گروپ ہوں گے موجودہ اسمبلیاں قبضہ گروپوں سے بھری پڑی ہیں۔ہم پٹواری نظام ختم کرکے زمینوں کو کمپیوٹرائزڈ کریں گے، ہم تھانہ کلچر بدلنا ہے پولیس کوغیر سیاسی بنانا‘جب سیاسی جماعتیں اپنے کارکنوں‘ دہشت گردوں‘ چوروں اور ڈاکوؤں کو پولیس میں بھرتی کراتی ہیں تو امن کیسے ہو گا۔ پولیس کو غیر سیاسی کرنے کے بعد تھانیدار کا الیکشن ہوا کرے گا جب تھانیدار منتخب ہو کر آئے گا تو وہ عوام پر ظلم نہیں کر سکے گا ہم نے اپنے گاؤں کے لوگوں کو بھی آزاد کرنا ہے۔ بلدیاتی نظام لے کر آئیں گے۔ گاؤں کی سطح پر لوگوں کو مفت انصاف دلا کر دکھائیں گے۔ ہم بلدیاتی پنچائتوں کے تحت ہیلتھ یونٹ اور پرائمری سکول بنائیں گے یہ نہیں کہ وہ بے چارے بھاگتے آئیں ”خادم اعلی“ کے پاس اور چکر لگانے پڑتے ہیں لیکن ہم آ کر ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچی بھائیوں پر بہت ظلم ہوا ہے ہم انہیں اپنے ساتھ ملائیں گے بلوچی بھائیوں کو اپنا بھائی بنائیں گے‘ پاکستان میں آپ کو وہ سٹیٹس دیں گے جو آج تک آپ کو کسی نے نہیں دیا۔انہوں نے کہا کہ میاں صاحب جان دیو ہن ساڈی واری آن دیو۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے مزید کہا کہ بلوچستان وہ علاقہ ہے جہاں 260ارب ڈالر کے تانبے کے ذخائر موجود ہیں،وہاں سوئی گیس کے ایک اورزین گیس ملی ہے جو انتہائی اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں بلوچی بھائیوں کے ساتھ ظلم کیا گیا ‘ تحریک انصاف بلوچی بھائیوں کو یقین دلاتی ہے انکو ساتھ ملائیں گے اور ان سے بات چیت کریں گے۔وہاں ملٹری آپریشن اور ٹارگٹ کلنگ کو ختم کریں گے اور انہیں اپنا بھائی بنائیں گے۔ بلوچی بھائیوں کو وہ عزت دیں گے جو انہیں ابھی تک کسی نے نہیں دی۔ دہشتگردی کے خلاف امریکہ کی جنگ ہماری نہیں بلکہ ہمارے حکمرانوں نے ڈالروں کے لیے اسے اپنایا ہے میں ایسی جنگ پر لعنت بھیجتا ہوں ‘ حکمرانوںکو اس پر شرم آنی چاہیے کہ انہوںنے اپنے لوگوں کا خون بیجا ہم تمام ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کریں گے۔ حکمرانوں نے 35ہزار پاکستانیوں کو صرف ڈالروں کے لیے مروا دیا جس میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں جو بچے ہیں انکے بازو ور ٹانگیں نہیں ہم ڈالروں کی پوجا کرنے والوںکا احتساب کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ قبائلی علاقوں کے معززین نے کہا ہے کہ ملٹری آپریشن سے دہشتگردی ختم نہیں بڑھ رہی ہے ہم امن کو موقع دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اگر پاکستانی قبائلی علاقوں سے فوج نکلے تو وہ خود دہشتگردی کو ختم کر دیں گے۔ قبائلی علاقوں میں 10 لاکھ مسلح لوگ ہیں جو ہمارے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہم ڈائیلاگ کا راستہ اپنائیں گے اور انہیں ساتھ ملا کر چلیں گے۔،ہم افغانستان سے نکلنے میں تمہاری مدد کرین گے لیکن تمہارے کہنے پر ملٹری آپریشن نہیں کریں گے ‘ پاکستان کی فوج کبھی اپنی عوام کے خلاف استعمال نہیں ہوگی ‘پاکستان کبھی بھیک نہیں مانگے گا ‘بتایا جائے کہ کیاقائد اعظم محمد علی جنا ح بھیک مانگ سکتے تھے عمران خان بھی مر جائے گا لیکن بھیک نہیں مانگے گا بلکہ اپنے لوگوں کو اپنے پاں پر کھڑا کریں گے ‘ بھکاریوں کی دنیا میں کوئی عزت نہیں ہوتی ‘ بھیک مانگنے کی وجہ سے لائن میں جھک کر کھڑا ہونا پڑتا ہے۔جب ہم بھیک مانگتے ہےں تو چاچی کلنٹن یہاں دھمکیاں دیتی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے مزید کہا کہ ہم پاکستان کے ہرے پاسپورٹ کی دنیا مےں عزت بحال کرائیں گے،کرپشن ختم کر کے آزاد عدالتیں بنا کر انشاءاللہ یہاں اتنی سرمایہ کاری آئے گی کہ پاکستانی ڈالروں کی اپنے وطن پر بارش کر دیں گے میری اللہ سے دعا ہے کہ پاکستان کو ایسا ملک بنا جہاں دنیا بھر سے لوگ ملازمتیں تلاش کرنے کے لیے آئیں، مےں اپنے تمام مزدوروں کو پیغام دیتا ہوں کہ ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے ہم آپ کو آپ کے حقوق دلائیں گے۔ ہم خواتین کی تعلیم کے لیے ایمرجنسی ڈیکلیئر کریں گے‘ عیسائی اور تمام اقلیتیں بھی آزاد ہوں گی، ان پر کوئی زیادتی نہیں کر سکے گا۔ میں بھارت کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس نے جو کشمیر میں 7 لاکھ فوج رکھی ہوئی ہے فوج کے ذریعہ کسی کو نہیں دبایا جاسکتا۔ جب امریکہ فوج کے ذریعہ کسی کو غلام نہیں رکھ سکا تو یہ کیسے کامیاب ہو سکتے ہےں، تحریک انصاف کشمیریوں کے ساتھ کھڑی ہوگی اور انہیں ان کے حقوق دلائے گی۔ ہم چین سے دوستی بڑھائیں گے، ان کی مدد لیں گے۔ عمران خان نے تمام ساتھیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا آپ کو اب کوئی نہیں روک سکتا۔ انہوں نے کہا کہ آصف زرداری مےں آپ کی حکومت کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ چند ماہ کے اندر اثاثے ڈیکلیئر کر دیں۔انہوں نے کہا کہ اثاثے ڈیکلیئر نہ کرنے والوں کے خلاف اور آزاد الیکشن کمشن کے قیام کے لیے سپریم کورٹ میں جائیں گے۔ وہ ہم تمام سیاستدانوں کے اثاثوں کی خود تفتیش کریں گے، پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے مستقبل کیلیے پروگرام دیتے ہوئے واضح اعلان کیا ہے کہ اگر حکمرانوں اور سیاستدانوںنے اپنے اثاثے ظاہر نہ کیے تو سول نافرمانی کی تحریک شروع کر دیں گے اور تمام شہر بند کردیں گے ‘تحریک انصاف کے چیئرمین نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ گاوں کی سطح پر لوگوں کے لیے پنچائتی نظام لایا جائے گا اور انہیں ان کی دہلیز پر انصاف دیں گے۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا مینارِ پاکستان میں جلسہ اور زندہ دلانِ لاہور کی آمد یہ ثابت کرتی ہے عوام باشعور ہیں اور اُن کو متبادل قیادت کی اَشد ضرورت ہے لیکن یہ جلسہ قیادت کی تبدیلی کی طرف ایک قَدم ہے نہ کہ نظام کی، نظام کی تبدیلی کے لیے پاکستان تحریکِ انصاف کے کارکنان اور نوجوانوں کو عمران خان کا ساتھ دینا پڑے گا۔جب کہ عمران خان کو ہر قسم کا دباؤبالاے طاق رکھ کراس جلسے میں دیے گئے منشور پر عَمل پیرا ہونے کے ایڑی چوٹی کا زور لگاناچاہیے اور مفاہمت کے نام پر کی جانے والی سیاست کے چُنگل سے بچناچاہیے کیونکہ سیاست میں دَشمن کا دُشمن دوست ہوتا ہے۔
....٭٭٭....

منگل، 30 اگست، 2011

اتوار، 31 جولائی، 2011

تھانہ کلچر اور پولیس گردی

1 comments
 تھانہ کلچر اور ۔۔۔کالم
تھانہ کلچر اور پولیس گردی
تحریر: رحمان محمودخان
کیاتھانہ کلچر کبھی ختم ہوگا؟
یہ ایک ایسا چبھتا سوال ہے جس کا جواب دلائل کی لمبی فہرست کے ساتھ روزانہ ملک کے اخبارات و جرائدکی زینت بنتا ہے،پاکستان کا کوئی ایسا روزنامہ یا ٹی وی چینل نہیں‘جہاںکالم نگاروں،رپورٹر حضرات اور اینکر پرسن نے تھانہ کلچر اور پولیس گردی پربحث مباحثہ اور تجاویزنہ دی ہوں۔اِن پروگراموں میں مدعو کیے گئے مہمان تھانہ کلچر اور پولیس گردی کو جَڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے اقدامات اور دعووں سے پروگرام کے (40منٹ)دورانیہ کو گلو خلاصی کراتے ہیں اور اِس بات پر ہی خوش ہو جاتے ہیں کہ انھوں نے کامیاب انٹرویو دے کر اینکرپرسن(میزبان) کو سَر کرلیا،لیکن آج تک تھانہ کلچر بَدل سکا اور نہ ہی پولیس کا نارواسلوک(پولیس گردی)۔
اَب تویہ تھانہ کلچر اور پولیس گردی ملکی سطح پرثقافتی ورثہ اور پہچان بن چکی ہے،جس میں غنڈہ گردی،قبضہ مافیااور دیگر جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی یا بلاواسطہ پشت پناہی کرنا، حق دار کو ناحق گالیاں اور نازیبا الفاظ کا استعمال شامل ہے۔راقم اِن محافظوں کے منہ سے یہ خرافات اور بے ہودہ زبان کا استعمال وغیرہ زمانہ طالبِ علمی سے سماعت کرتا رہاہے،لیکن چند روز قبل ایک ایساہی واقعہ راقم اور اہلِ خانہ کے ساتھ پیش آیا،”جَب خود پہ بیتتی ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ کیا بھاؤہے!“۔کچھ ایساہی ہوا۔۔۔کیوں کہ مَیں مختلف اخبارات ،نیوز ویب سائیٹس پر کالم اور فیچر لکھتا ہوں،اس لیے قارئین کو صِرف یہ بتانا مقصود ہے کہ تھانہ کلچر اور پولیس گردی ختم کرتے کرتے یہ حکومت بھی مدّت پوری کر چلی،جج حضرات فیصلے سناتے سناتے ریٹائرڈ ہو جاتے ہیں،مدعی اور حق دار افراد اپنامسئلہ،مدعا لے کر کورٹ کچہریوں میں پٹیشن وغیرہ دائر کرتے کرتے زندگی کی60ویں سالگرہ مناتے ہیں،اور ہم جیسے لوگ جہادباالقلم سے اِن چیرہ دستیوں کو درست کرنے کی کوشش میں وقت صَرف کرتے ہیں،جب کہ پولیس(جو لائن آرڈر کی درستگی کی بجائے ایک مافیاکا روپ دھار چکی ہے)اپنی دہاڑی بنانے کے عمل میں دِن رات کوشاں رہتی ہے۔قانون کا یہ بے لگام اِرتقائی سفررواں دواں رہتا ہے اور دوسری طرف غنڈہ عناصر،قبضہ مافیاحضرات ساز باز کرتے ہوئے اپنی دنیا سنوارنے اور بے گناہوں کی دنیا اُجاڑنے میں مصروف رہتے ہیں۔
اِن قبضہ مافیاعناصر کے ایسا کرنے میں اِن کی معاونت کون کرتا ہے؟یہ بتانا اس لیے ضروری نہیں کیوں کہ یہ حقیقت آپ بھی اچھی طرح سمجھتے اور جانتے ہیں،لیکن اِن معاونین کے علاوہ قصور کہیں پہ ہمارا(عوام کا) بھی ہے،کیوںکہ ہم خاموش تماشائی بنے اس لیے چُپ سادھے رہتے ہیں کہ یہ ”صِرف اُس کے ساتھ ہی تو ہو رہا ہے“۔یہ خاموشی بھی تو اِن تخریبی عناصر کو حوصلہ دیتی ہے۔مَیں یہ واقعہ قارئین اور اربابِ اختیارکے عِلم میں اِس لیے بھی لاناچاہتا ہوں کہ اِن کے افسرانِ بالا کو اندازہ ہوجائے کہ اِن کی ”چَھتر چھائیہ“میں تھانے دار حضرات کیسے بے گناہوں اور مدعیوں کو زدوکوب کرتے ہیں اور کم اَز کم آئیندہ کے لیے ہی پولیس اور قبضہ مافیا عناصر کوبھی تنبیہ ہو جائے :۔
راقم کے گھر سے ملحقہ پلاٹ پر کچھ قبضہ مافیا(بظاہر شریف)افرادقابض ہونے کے خواہاں ہیں،عدالتِ عالیہ(دیوانی) میں اِس کیس کی شنوائی عرصہ تین سال سے ہو رہی ہے۔عدالتی کاروائی سے ہم لوگ مطمئن تھے،راقم کے اہلِ خانہ نے عدالتِ عالیہ کومکمل ثبوت Stayاورمتعلقہ کاغذات فراہم کیے،جس کے باعث عدالتی کاروائی کے دوران مخالفین کا
خارج ہو گیا،اوراُن پر توہینِ عدالت کی شِک بھی لگ گئی لیکن مخالفین قانونی پیچیدگیوںسے بچتے بچاتے بارہا پولیس کو فریق کی حیثیت سے شامل کرنے کی تگ ودو میں لگے رہے۔ چند ماہ قبل عدالت نے اِس معاملے کے حَل کے لیے کمیشن بھیجا۔جس نے دونوں فریقین کے دلائل اور موقع کا معائنہ کرکے حقائق پر مبنی رپورٹ عدالت میں پیش کی،جس سے عدالت کو اِس معاملے میں مزید کنفرمیشن ہوگئی۔مگر جب مخالفین کواِس تمام کاروائی سے مستقبل قریب میں اُن کے خلاف ایکشن ہوتا دکھائی دیا تو اِن قبضہ مافیاعناصر نے عدالت کا وقت ضایع کرنے اور دوسرے اوچھے ہتھکنڈے اختیارکیے۔یہ حضرات عدالت کی دی گئی تواریخ پرحاضر نہ ہوتے۔جس سے کیس نے مزید طول پکڑا۔دوسرا طریقہ جو اِن قبضہ مافیا اور ڈرگ مافیا نے اختیار کیا وہ راقم اور اہلِ خانہ پرغلط اور بے بنیاد الزامات لگا کر پولیس کے ذریعےہراساں کرنا شروع کردیا،تاکہ اِس کیس کا فیصلہ عدالت سے باہر پولیس کے روایتی” مُک مُکاؤکے ذریعے ممکن ہوسکے،اِس سلسلے میں مخالفین نے اپنے گھر کی دیوار مرمّت کرنے کے بہانے راقم کے پلاٹ کو عارضی طور پر لینے کے لیے ہمارے خلاف ایک جھوٹی اور بے بنیادالزمات پر مبنی درخواست پولیس کو دی۔جَب اِس سے بھی چارہ کارگر نہ ہوا تو اِن حضرات نے پولیس اسٹیشن میں ڈرانے دھمکانے کا انداز اختیار کیااور راقم سے بھی نازیبااوربَداخلاق زبان کااستعمال کیا۔اِس موقع پر راقم کے والدگرامی (جو دِل کے مریض ہیں)نے حق بجانب ہونے کے باعث پولیس کو تنبیہ کی کہ عدالت میں زیرِسماعت کیس کو پولیس سٹیشن میں حَل نہیں کیا جاسکتا،اِس تلخ کلامی کے بعدپولیس کے”محترم سَب انسپکٹر“نے اُن قبضہ اورڈرگ مافیاافرادکے روبرومیرے والد گرامی اور مجھ کوحوالات کی ہوا کھانے کی دعوت دی،یہ سَب کچھ میری موجودگی میں وقوع پزیر ہوا،جس پر میری مداخلت کرنے اورگالیاں سننے کی سَکت جواب دے گئی،اِس تمام واقعے میں مخالفین کی ٹولی نازیبا اور بے ہودہ گالیوں کا استعمال نہایت نپے تلے انداز سے کرنے میں پولیس کی برابر کی شریک رہی۔اسی اثناءمیں میرے والد گرامی کو اینجائنا کی دَرد ہونے لگی،بالآخر معاملہ عارضی طور پر دَب گیااور ایک بار پھر اُن عناصر کو دندناتے پھرنے کا استحقاق حاصل ہوگیا۔
اِس تمام واقعے نے پولیس کے چند افراد کی غنڈہ اور قبضہ مافیا عناصر کو پشت پناہی کرنے کی کئی گرہیں کھول دیں،ایک طرف پولیس کہتی ہے کہ عدالت میں زیرِ سماعت کیس کے کسی بھی معاملے میں پولیس بولنے سے قاصر ہے‘جب تک عدالت حکم نہ دے۔جب کہ دوسری طرف پولیس اِن عناصر کے ساتھ ایک فریق کی حیثیت اختیار کرکے ایک طرح سے عدالت کامذاق اُڑانے کی مرتکب ہو تی ہے۔
اِس واقعے کے بعد راقم کو عِلم ہوا کہ شریف اور حق دار انسان پولیس سٹیشن جانے سے کیوں کتراتا ہے، کیوں کہ اُسے علم ہوتا ہے کہ جتنا سرمایہ یا جائداد اُس کے پاس موجودہے کہیں اُس سے بھی ہاتھ دھونے پڑ جائیں۔
٭   قارئین اور اربابِ اختیار کو اِس تمام واقعے سے آگاہ کرنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ جب ایک کیس عدالت میں فیصلے کے قریب ہے تو عدالت سے باہر زدو کوب یاہراساں کرکے معاملات حَل کرنے کا کیا جواز ہے؟
٭   پولیس کی کارکردگی کوبڑھانااور رشوت ستانی کو ختم کرنے کے لیے وزیرِ اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے پولیس کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ اِس لیے کیاتھا کہ یہ حق دارسے اُس کا حق چھینے اور غنڈوں ،قبضہ مافیوںکو حوصلہ دیں!!!
راقم کی چیف جسٹس آف سپریم کورٹ ،چیف جسٹس آف ہائی کورٹ،وزیرِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اور پولیس کے کسی ایمان دار اور فرض شناس افسر سے اپیل ہے کہ خدارا اِس معاملے میں راقم اور اہلِ خانہ کی مدد نہ سہی تو کم از کم عدالتی معاملات میں مداخلت سے پولیس اوراُن قبضہ مافیا کو روکا جائے اور تحفظ فراہم کیا جائے۔۔

تحریر: رحمان محمود خان
Feedback:peghaamnews@gmail.com

http://peghaam.blogspot.com/
http://article.urduhome.net/2011/08/01/rehman/ 
http://www.urdusky.com
http://hamariweb.com/articles/article.aspx?id=15095
http://zeeshannews.com/columns/rehman/8.htm
In India:  http://www.khwajaekramonline.com/blog/?p=1834


....٭٭٭....

جمعرات، 14 جولائی، 2011

پاکستان میں گرینڈ الائینس

0 comments

پاکستان میں گرینڈ الائینس کا تاریخی تناظر
تحریر:رحمان محمود خان
توجہ طلب بات ہے!
پاکستان کے تمام ادارے،انتظامیہ اور سیاسی جماعتیں ایک افراتفری کے عالم میں ہیں،ہرادارے میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی مسابقت چل رہی ہے۔ریاستی اداروں سمیت پرائیویٹ سیکٹر اور ملٹی نیشنل کمپنیز بیان بازی اور ذاتی فنڈ ریزنگ کے چکر میں ہیں۔جس کی بدولت اِالاّماشاءاللہ ہماری سیاسی جماعتیں اپنی دکان داری چمکانے میں تَن،مَن،دَھن ایک کیے ہوئے ہیں،جس کاواضح حاصل یہ ہے کہ ان تمام چیزوں میں بھلائی اور اچھائی صِرف ذاتی ہے اجتماعی نہیں اور جس ملک کے ریاستی ادارے عوام کے اجتماعی مفادکو مدِّنظر رکھنامتروک کردیں اورصرف اپنے بنک بیلنس کوترجیح دینااوّلین نصب العین سمجھ لیں‘تواُس ملک کا حال”پاکستان“جیسا ہی ہوگا،جہاں اصلاحِ احوال نام کی چیز ناپید ہوچکی ہے۔اداروں کی اصلاح اس صورت میں ہی ممکن ہے کہ گُڈگورننس کے نام لیواوں کو کم از کم اس بات کا ادراک ہو جائے کہ عوام کو ریلیف دینے سے ہی یہ سب ممکن ہے،لیکن افسوس یہاں توگُڈ گورننس ہے ہی ان کے ذاتی اور پارٹی مفاد کے لیے۔۔۔۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اکثر یہ ہوتا آیا ہے کہ جب ایک سیاسی جماعت کے ہاتھ کچھ نہ آیا یا بہت تھوڑا آیاتواس جماعت کے سرکردہ رکن نے باقی تھکی ہاری جماعتوں کے سربراہان کو اکٹھاکیا،چند مفادی باتوں کو عوام کے مفادکے روپ میں ڈھال کر ایک اتّحاد بنا لیا اور اس کا نام ”گرینڈ الائینس“ رکھ دیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسے دھڑے حکومت کو توڑتے توڑتے خود بھی ا،ب،ج جیسے دھڑوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں،اور آخر میں حروفِ تہجّی کے علاوہ کچھ نہیں بچتا۔پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسے کئی گرینڈ الائینس اپنی موت آپ مرتے رہے ہیں۔
اَب ایک نیاگرینڈالائینس بننے کی طرف رواں دواں ہے جس کی بنیادبدھ6جولائی کومسلم لیگ (ن)اور ایم کیو ایم نے رکھی،اس سے ملکی سیاست میں ایک نئی ہلچل اور سیاسی حلقوں میں کشیدگی کے بادل اُمڈ آئے ہیں اور چند روز قبل یہ بادل سندھ کے سینئر صوبائی وزیر ذوالفقارمرزاکی صورت میں گرج برس گئے ہیں۔اب اس گرینڈالائینس کے بارے پاکستان پیپلز پارٹی درست بتا سکتی ہے کہ آیا یہ گرینڈالائینس ہوگا یا گرائینڈ الائینس۔۔۔۔
راقم کو سابقہ اخبارات کی دھول اُڑانے پر معلوم ہوا کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسے گرینڈالائینس ہوتے آئے ہیں۔قصّہ یوں ہے:
(1)
1970ع کے بعدجب ملک میں سیاسی استحکام آنے لگا، ترقی کا پہیہ چلنے لگا،معاشرے میں برداشت اور جمہوری روایات قدم جمانے ہی لگی تھیں کہ 1977 ع کے انتخابی نتائج کو جواز بنا کر پاکستان عوامی اتحاد (پی این اے) کی شکل میں ایک گرینڈ الائنس وجود میں آیا‘جمہوریت کی بساط لپیٹنے کے لیے ملک کی نو جماعتیں اکٹھی ہوئیں،اُن دنوںحکومت اور پاکستان عوامی اتحاد (پی این اے) کی محاذ آرائی عروج پر تھی۔اس الائینس میں مولانا مفتی محمود اور مولانا مودودی بھی شامل رہے۔ذوالفقار علی بھٹوکے پاکستان عوامی اتحاد (پی این اے)کے مذاکرات کامیاب ہو نے ہی والے تھے،حکومت اور گرینڈ الائینس کے مابین معاہدے پر دستخط ہونے کے قریب تھے کہ4جولائی 1977ع کی شب جنرل ضیاءالحق نے اقتدار پر قبضہ کر لیااور گرینڈ الائینس (اتحاد) میں شامل تمام جماعتیں مارشل لاءکی نوتعمیر کردہ حکومت میں شراکت دار بن گئیں۔
(2)
آمرجنرل ضیاءالحق کے خلاف تحریک بحالی جمہوریت، ایم آر ڈی، کے نام سے ایک اور گرینڈ الائینس وجود میں آیا۔ اس الائینس کی خوبصورتی یہ تھی کہ اس میں پاکستان عوامی اتحاد (پی این اے)کی تحریک چلانے والے نواب زادہ نصر اللہ،ائیر مارشل اصغر خان، عبدالولی خان اور رسول بخش نمایاں تھے، تا ہم اس اتحاد کی مرکزی نمایندگی کم عمربے نظیر بھٹوکے حصّے آئی،دلچسپ امر ہے کہ وہی لوگ جو ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف تھے،آج اس کی بیٹی کی تقلید میں اکھٹے تھے۔لیکن اس الائینس نے پیپلز پارٹی کو بہت جانی نقصان پہنچایا۔پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان نیشنل پارٹی(پی این اے) کے کارکنان کو قیادت سمیت زیادتیوں کا نشانہ بنایا گیا۔
(3)
1998ع بنی نوع ِانسانی ع کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف دیگر مخالفین نے ایک اور موثر گرینڈالائینس بنایا۔جس میں مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم، ائیر مارشل اصغر خان اور محمد ان جونیجو شامل تھے۔ انتخابات میں اِس گرینڈ الائینس کو عبرت ناک شکست کی ہزیمت اٹھانا پڑی اور اس کے محض دو امیدوار جنرل (ر) انصاری اور ڈاکٹر شیر افگن خان نیازی کامیاب ہوسکے۔
(4)
1998ع میں پیپلزپارٹی کے مخالفین کے لیے بے نظیر بھٹو کا وزیراعظم بننا ناقابل برداشت تھا، جس کے نتیجے میں محاذ آرائی اور سیاسی کشیدگی کی فضا قائم کی گئی۔ایک بار پھرسازشوںکاجال انتہائی رازداری سے پاکستان کی پہلی خاتون وزیرِاعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتمادکی صورت میں سامنے آیا،اِس بارغلام مصطفےٰ جتوئی کی قیادت میں گرینڈ الائنس وجود میں آیالیکن تحریک عدم اعتمادناکام ہوئی مگر کچھ عرصہ بعداس وقت کے صَدرغلام اسحٰق خان مرحوم نے بے نظیر حکومت کو چلتا کیا۔
(5)
پاکستان کی سیاست میں ہارس ٹریڈنگ کا عنصر اِس دور سے بخوبی ملتا ہے۔1990 ع کی دہائی میں جو رسّا کشی پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی میں ہوئی،وہ کسی بھی شخص سے ڈھکی چھپی نہیں۔1990 ع کے انتخابات میں بے نظیر بھٹو اور پاکستان پیپلزپارٹی کو برسرِاقتدار آنے سے روکنے کے لیے ایک اور گرینڈ الائینس تشکیل دیا گیا جس کا نام اسلامی جمہوری اتِّحاد(آئی جے آئی)رکھا گیا،جس کے روحِ رواں آئی ایس آئی کے جنرل ریٹائرڈ حمید گُل تھے۔اسی اثنا میں محترمہ بے نظیر بھٹو، نواب زادہ نصر اللہ مرحوم، ائیر مارشل اصغر خان، ڈاکٹر طاہر القادری نے مل کر پاکستان ڈیمو کریٹک الائنس (پی ڈی اے) کے نام سے گرینڈ الائینس بناڈالا۔
(6)
1990ع کے انتخابات کے نتیجے میں نواز شریف حکومت کے خلاف ایک اور سیاسی اتحاد قائم کیا گیا،جس میں مرحوم نواب زادہ نصر اللہ خان، بے نظیر بھٹو ، غلام مصطفےٰ جتوئی، مولانا کوثر نیازی بھی شامل تھے۔
سیاسی شورشیں پیدا ہوتی رہیں ،گرینڈالائینس بنتے،ٹوٹتے اور بکھرتے رہے،اورایسے خود ساختہ اتِّحاداپنی موت آپ ختم ہوتے رہے۔
(7)
محترمہ بے نظیربھٹو اور نواز شریف کے اَدوارکی آنکھ مچولی کے بعد ایک اور آمر(پرویز مشَّرف) کا دور آیا جس میں اس وقت کی اپوزیشن نے مرحوم نواب زادہ نصراللہ خان کی سرپرستی میں ایک اور گرینڈ الائینس”اے آر ڈی“کے نام سے بنایا۔جس میں ملک گیر تحریک چلائی گئی اور بالاخر”باری باری“کی سیاست رنگ لائی،پرویز مشَّرف نے محض اپنی باری پوری کرکے اقتدار کے مزے لوٹنے کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کو حکومت سونپ کر پردیس کی راہ لی۔
(8)
2008ع کے انتخابات کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی،پاکستان مسلم لیگ(ن) اورمہاجر قومی موومنٹ(ایم کیو ایم)اور دیگر جماعتوں کے درمیان ”کچھ دو،کچھ لو“کے مصداق مفاہمتی ڈیل طے پائی۔
لیکن اَب کی بار2011ع میں پاکستان پیپلز پارٹی،پاکستان مسلم لیگ(ق)کے مابین مفاہمتی اور اشتراکی سلسلے کا آغاز ہو اہے۔جب کہ پاکستان مسلم لیگ(ن) اورمہاجر قومی موومنٹ(ایم کیو ایم)کے مابین ایک بڑے سیاسی اتِّحادکاآغاز ہواہے۔
جس کا نتیجہ تاریخ دان کورے کاغذ پر ثبت کرنے کے لیے بے چین ہیں۔اِس بارگرینڈالائینس میں شامل جماعتوںمیں پاکستان مسلم لیگ(ن) اورمہاجر قومی موومنٹ(ایم کیو ایم)،جماعتِ اسلامی،جمیعت علمائِ اِسلام،سنّی اتِّحاد کونسل،تحریکِ انصاف،بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں اور تحریک صوبہ ہزارہ شامل ہیں۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ جو جماعت بارہا یہ کہتی رہی کہ آمر کی گود میں بیٹھنے والوں سے دوستی نہیں کی جائے گی،آج وہی جماعت عوام کو بے وقوف بناتے ہوئے اپنے الُّو سیدھے کرنے کے ساتھ ساتھ آئیندہ انتخابات کے لیے راہ ہموار کرہی ہیں۔اَب دیکھنا یہ ہے کہ یہ گرینڈ الائینس محض اپوزیشن کی قسمتیں بدلتا ہے یا عوام کی۔۔۔۔اگر اِس الائینس سے عوام کو ریلیف ملتا ہے،تو یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کاایک عظیم کارنامہ ہوگالیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔۔۔!!!!

تحریر: رحمان محمود خان
Feedback:peghaamnews@gmail.com
More Links:

....٭٭٭....

پیر، 25 اپریل، 2011

کِردار ہمیشہ زندہ رہتے ہیں

1 comments


کِردارمعین اختر۔۔۔۔فیچر
کِردار ہمیشہ زندہ رہتے ہیں
تحریر:رحمان محمود خان
جب روح قفسِ نفسی سے پرواز کرکے خالقِ حقیقی سے وصال پاتی ہے تو مٹی کا یہ کھلونا (جسم)خاک نشین ہو کر قدرت کے پردوں میں غائب ہو جاتاہے،جسم مَر جاتا ہے اور ارشادِباری تعالیٰ کے مطابق ہرنفس موت کا ذائقہ چکھتا ہے لیکن کردارہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ہر اچھے انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ زندگی کی سٹیج پر کوئی اہم کردار اور عمدہ کرِدار ادا کرے اور اپنے فَن کو دوسروں تک پہنچائے۔کچھ ایسے انسان بھی قدرت نے اس روئے ارض پر متعارف کروائے جن میں فطرتاًپوشیدہ فَن کار ہوتا ہے اور ایسے انسان جب عروج کی منازل طے کرتے ہیں تو عروج کو بھی ان پر فخر ہوتا ہے اور ایسے کِردار جب زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں تو کئی دوسری زندگیاں بھی غمزدہ اور افسردہ ہو جاتی ہیں،ایسا ہی اِک کِردار تمغہ حسنِ کارکردگی،ستارہ امتیاز اور بے شمار پرائڈ آف پرفارمنس کا حامِل فَن کار ”معین اختر “ کے نام سے جانا اور خوب پہچانا جاتا تھا،جس کا بہترین ایوارڈ ان کے جنازے
میں شریک افرادکی شکل میں تھا۔
کون ہے جو تقدیر سے پوچھے کہ کیوں مر جاتے ہیں ایسے لوگ
جن کی باتیں ، جن کی یادیں بن جاتی ہیں دِل کا روگ
معین اخترجس کا کیرئیر تقریباً 44برس کی فَن کارانہ صلاحیتوں کا حامل تھا،اس تمام عرصے میں ایک بار بھی خزاںکا موسم نہ دیکھا،ہر بار اور ہر کِردار میں اپنے مداحوں کا دِل جیتا۔بین الاقوامی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔6ستمبر1966ع کاوہ دِن جس روز معین اختر نے اپنے فَن کا آغاز کیا،یہ وہ پروگرام تھا جو جنگِ ستمبر1965عکے ایک سال مکمل ہونے پر یومِ دفاع کے موقع پر پیش کیا گیا،جِس میں معین اختر نے میزبانی کرتے ہوئے ایسی یادگار پرفارمنس دی جو مرتے دَم تک اس فَن کار کا خاصہ رہی۔اِس پرفارمنس کے بعد اردو زبان جاننے والا ہرشخص معین اخترکے نام سے واقف ہوتا چلا گیا،فن کی دنیا میں مزاح سے لے کرطَنز اورپیروڈی سے لے کر گائیکی تک معین اخترکی اداکاری اور صَدا کاری کے جوہردہائیوں تک ناظرین وحاضرین کومحظوظ 
کرتے رہے،معین اختر کی زندگی کا کچھ احوال گوش گزار ہے۔۔۔
معین اختر 24دسمبر 1950ع کو کراچی میں پیدا ہوئے تھے۔پاکستان ٹیلی ویژن کی تاریخ معین اخترکے بغیرنامکمل ہے،پاکستان میں ڈرامہ، اسٹیج اور مزاحیہ اداکاری کے بہت سے نئے پہلومعین اخترکی فَن کاری میں نمایاں ہوئے،بالخصوص انورمقصود اور بشریٰ انصاری کے ساتھ اشتراک میں کئی یادگارمثالی پروگرامز اورڈرامے کیے۔ فَن کاروں کی نئی نسل کے لیے معین اخترہمیشہ مشعلِ راہ ثابت ہوئے۔ معین اختربے مثال صلاحیتوں کے مالک تھے،انہیں انگریزی، بنگالی، سندھی، پنجابی، میمنی، پشتو، گجراتی سمیت متعدد زبانوں پرعبور حاصل تھا۔اُردوفَن کی دنیا میں معین اخترایک اَن مِٹ نام ہے۔معین اختر کو ٹی وی پر امیر امام نے اپنی سیریل "انتظار فرمایئے" کے ذریعہ متعارف کرایا جس میں ان کے کردار ”راجہ پہلوان“ کو بے پناہ شہرت ملی۔ معین اخترنے ”روزی کانسوانی کرداریادگاربنادیا،اس ڈرامے میں معین اختر نے دوشیزہ کاکردار بڑے کمال مہارت سے انجام دیا۔ڈرامہ سیریل سَچ مُچ میں ”سیٹھ منجور(منظور) دانہ والا“کا کِردار سراہا گیا۔اس کے علاوہ اسٹیج پر بے شمار ڈرامے کیے۔”بکرا قسطوں پر “اور ”بڈھا گھرپر ہے“ میں اپنے ساتھی اداکار عمر شریف کے ساتھ یادگار شوز کیے ۔اِس کے علاوہ متعدد شوز،اسٹوڈیوڈھائی، اسٹوڈیو پونے تین، اورلوز ٹاک جیسے شاندار مزاحیہ شوز بھی بہت پسند کےے گئے، ٹیلی ویژن سیریل روزی، مکان نمبر فورٹی سیون ،فیملی نائنٹی تھری،پائلٹ یعقوب،بھائی سموسہ کھائیے،ڈالرمین، لانگ پلے ”ہاف پلیٹ“، عید ٹرین، بندرروڈ سے کیماڑی، سَچ مُچ اورآنگن ٹیڑھا یادگار ڈرامے ہیں۔معین اختر نے انور مقصو د کے ساتھ مشہور مزاحیہ ٹاک شو ”لووز ٹاک “کی چارسو سے زائد اقساط میں مختلف گیٹ اَپ کیے۔اس پروگرام کو انور مقصو د نے ہی تحریر کیا جب کہ میزبان بھی انور مقصود ہی تھے۔معین اختر نے مختلف فَن کاروں کے ساتھ کام کیا مگر جو کیمسٹری اور ہم آہنگی اُن کی انور مقصو د اور بشریٰ انصاری کے ساتھ رہی وہ 
بےمثال ہے۔انورمقصود کی مزاحیہ تحریرکا خیال آتے ہی تصورمیں معین اخترکے مختلف بہروپ اُبھرتے ہیں ۔
معین اختر پاکستان کی شوبز کی وہ واحد شخصیت تھے جنھوںنے ایک ایسے شو کی میزبانی کے فرائض انجام دیے‘ جس میں بطور میزبان معین اختر نےعُمّان کے شاہ حسین اورگیمبیا کے وزیر اعظم داؤ ٰدی الجوزانے، صدرضیاالحق، وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو، جنرل یحیی خان اور غلام اسحاق خان جیسے سیاستدانوں کے انٹرویوز کیے۔
معین اختر ملک میں ہی نہیں بَل کہ بیرون ملک بھی اپنے فَن کا مظاہرہ کیا۔معین اختر کو”نقّالی“ میں خاص مہارت حاصل تھی،مشہور اداکاروں ،سیاست دانوں کی بڑی مہارت سے نقل کیا کرتے۔ پاکستان کے نامور اداکار اور لیجنڈ محمد علی،وحید مراد ،مہدی حسن اور احمد رشدی کے علاوہ دیگر اداکاروں کی”نقّالی“ بڑے خوبصورت انداز میں کرتے۔
معین اختر نے گلوکاری میں بھی اپنے فن کا لوہا منوایا،ان کے گانوں کا ایک البم ”تیرا دل بھی یوں ہی تڑپے “بھی ریلیز ہوا جس میں انہوں نے اپنی آواز کا جادو جگایا۔معین اختر نے فلم ”تاج دار“ اور ”مسٹرکے ٹو“میں اپنے فَن کا مظاہرہ کیا۔
معین اخترکو ان خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے ”پرائڈ آف پرفارمنس “ اور”ستارہ امتیاز “سے نوازا گیا۔اس کے علاوہ دیگر ایوارڈز جنِ میں نگار ایوارڈ،کریٹک ایوارڈ،گرایجویٹ ایوارڈ،مصّوِر ایوارڈ،عوامی ایوارڈ اور پاکستان ٹیلی ویژن کی جانب سے چھے ایوارڈز سے نوازا گیا۔
معین اختر طویل عرصے سے دل کے عارضہ کو اپنے سینے میں چھپائے ہوئے تھے ،کچھ برس قبل اُن کا بائی پاس آپریشن بھی ہوا۔گزشتہ دِنوںسینے میں شدید درد کی شکایت پر انھیں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیوویسکولر ڈیزیز لایا گیالیکن وہ جان بَر نہ ہوسکے۔
معین اختر کروڑوں دلوں کی دھڑکن تھے وہ جہاں جاتے میلہ لگ جاتا۔معین اختر نے 61سالہ زندگی میں سے 45برس اپنے فن کی خدمت کرتے گزارے،شوبز کے تمام شعبوں ڈرامہ، اسٹیج ، فلم،گلوکاری اورکمپیئرنگ میں اپنا لوہا منوایا۔مزاح کی صنف کو سنجیدگی کا اسلوب بخشا، پیروڈی کرنے میں ان کووہ ملکہ حاصل تھا، جس کی کوئی فنکار تمنا ہی کرسکتا تھا۔ سنجیدہ اداکاری ہویاکامیڈی،انہوں نے جو کردار کیااس پر اپنی چھاپ لگاچھوڑی۔اُن کا نام ہی ڈراموں اور اسٹیج شوز کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتاتھا۔ وہ اپنی ذات میں ایک دَرس گاہ تھے، اِن جیسی شخصیات کے لیےشاعر نے کہا ہے کہ
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
 معین اختر کی بنیادی پہچان اور وجہ مقبولیت بھی ان کی منفرد کمپیئرنگ تھی۔ وہ بہت شائستہ انداز میں شگفتہ گفتگو کرتے تھے اور برجستگی سے بات کرتے تھے۔ ٹی وی پروڈیوسر قاسم جلالی کی سیریل ”یس سر نو سر“ سے بھی ان کی شہرت میں اضافہ ہوا۔ محسن علی اور سائرہ کاظمی کے ڈراموں اور سیریلز میں بھی معین اختر نے مختلف اور متاثرکن کردار ادا کیے۔ تاجدار عادل کے پروگرام” معین اخترشو“کی کمپیئرنگ بھی کی۔ تھیٹر میں بھی وہ اپنی بھر پور پرفارمنس سے شائقین سے داد وصول کرتے تھے۔اُن کا کامیاب ترین اسٹیج ڈرامہ"بچاؤ معین اختر" تھا ،اِس کے علاوہ بھی سید فرقان حیدر کے متعدد کھیل کیے۔ معین اختر نے اپنے 45سالہ فنی کیریئر میں بے شمارسٹیج ڈراموں کے علاوہ ٹی وی سیریل، ٹی وی شوز میں کام کیا۔ انہوں نے ریڈیو، اسٹیج، ٹی وی اور فلم سمیت تمام شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔
اداکاری کے ساتھ ساتھ انہوں نے ہدایتکار اور پروڈیوسر کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ انھوں نے متعدد ٹی وی ڈراموں کے علاوہ فلم کی ڈائریکشن بھی کی۔ ملک اور بیرون ملک ہونے والی تقریبات کے منتظمین کی خواہش پر معین اختر کمپیئرنگ کے لیےوہاں جاتے تھے۔ وہ لوگوں کے دلوں پر راج کرنے کا فَن جانتے تھے۔ برصغیر کے لیجنڈ اداکار دلیپ کمار کی خواہش پر معین اختر کو اُن کی سالگرہ پر میزبانی کے لیے خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا۔عوام کے ساتھ ساتھ حکمرانوں میں یحییٰ خان، غلام اسحاق خان، ذوالفقار علی بھٹو، پرویز مشرف، نوازشریف، فنکاروں میں دلیپ کمار، راج ببر، انیل کپور، سلمیٰ آغا، لتا منگیشکر، دیو آنند اور دھرمیندر سمیت بڑی تعداد میں ملکی و غیر ملکی فنکار ان کے مداح تھے۔اُن کے انتقال پر ان کےشوبز کے کئی ساتھیوں نے دِلی افسوس کا اظہار کیا۔اداکارقوی خان نےانھیں لیجنڈ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اُن کا خلاءشاید کبھی پُرنہ ہوسکے۔
معین اخترکی ناگہانی موت پر صدر آصف علی زرداری، وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے شدید رنج و غم کا اظہار کیا ہے جب کہ پاکستانی فلم انڈسٹری ، ٹی وی اور سٹیج سوگ میں ڈوب گئے۔ مزاحیہ اداکار عمر شریف نے معین اختر کی وفات پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ معین اختر جیسا اداکار دوبارہ پیدا نہیں ہوگا، ان کی وفات ناقابل برداشت خبر ہے، یقین نہیں آتا کہ وہ دنیا سے چل بسے۔ انھوں نے کہا کہ بے شمارفَن کاروں نے معین اختر کے سائے میں ترقی حاصل کی ، کامیڈی میں جتنی جدت معین اختر نے پیدا کی اتنی کوئی نہیں کرسکا۔
وزیراعظم نے اپنے تعزیتی پیغام میں مرحوم کے اہل خانہ سے ہمدردی اورتعزیت کااظہارکرتے ہوئے مرحوم کی مغفرت کے لیےدعا کی۔ انہوں نے کہاکہ معین اخترہمارے ملک کے ہمہ وقت ٹی وی آرٹسٹ تھے جنہوں نے اپنی اداکاری کے ذریعے جذبہ حب الوطنی کواجاگرکیا۔ وزیراعظم نے کہاکہ معین اخترکے انتقال سے ملک ایک اعلیٰ پائے کے اداکارسے محروم ہوگیااوراُن کے انتقال سے پیداہونیوالاخلاءتادیر پرنہیں ہوسکے گا۔ ملک وقوم کے لیےاُن کی قابل قدرخدمات کو ہمیشہ یادرکھاجائیگا۔ وزیراعلیٰ پنجاب محمدشہبازشریف نے تعزیتی بیان میں کہاکہ معین اختراپنی ذات میں انجمن تھے۔ انھوںنے کہا کہ معین اختربے پناہ صلاحیتوں کے مالک تھے۔ وہ اداکاری‘ کمپیئرنگ اور کامیڈی کے فَن میں یکتاتھے۔انھوں نے کہا کہ معین اخترکے انتقال سے وطن عزیز ایک مایہ نازفَن کارسے محروم ہوگیاہے۔متحدہ قومی موومنٹ کے قائدالطاف حسین نے معین اخترکے انتقال پردلی صدمہ اورافسوس کااظہار کیا، ایک بیان میں الطاف حسین نے کہا کہ معین اختر ریڈیو‘ ٹی وی‘ فلم اوراسٹیج کی دنیاکابہت بڑانام تھے۔اُن کاانتقال نہ صرف پوری پاکستانی قومبَل کہ پوری دنیا میں فن کے مداحوں کے لیے ایک بہت بڑاسانحہ ہے۔معین اخترجیسے فَن کارتاریخ میں روزروزپیدانہیں ہوتے۔ گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے معین اختر کے انتقال پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ گورنر نے مرحوم کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ معین اختر ایک نامور فَن کار تھے۔فَن کے شعبے خاص طور پر کامیڈی میں ان کے کردار کو بھلایا نہیں جاسکتا۔گورنر نے مرحوم کی مغفرت اور لواحقین کے لیے َصبرِ جمیل کی دعا کی۔ اداکاروں، سیاستدانوں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے اُن کے انتقال پر گہرے دکھ اور رنج کا اظہار کیا ہے۔
معین اختر کے انتقال کی خبر شوبز میں بھی جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ علمی، سیاسی، ادبی حلقوں میں صدمہ کا اظہار کیا گیا۔فَن کار برادری اُن کے انتقال کی خبر سے سکتے میں آگئی۔
معین اختر ایک بہت نفیس اور ہمدرد انسان تھے۔ اُن کے ساتھ اداکاری کرنا ہر اداکار کی ہمیشہ خواہش رہی۔ یہ ایک ناقابلِ پرداشت صدمہ ہے ،ساری زندگی سب کو خوشیاں دینے اور ہنسانے والا رلا کر چلا گیا، وہ اپنے طرز کا بہت باصلاحیت فَن کار تھا۔ قاسم جلالی ، حیدر امام رضوی،اداکارہ بشریٰ انصاری،اداکار شہزاد رضا، محمد سجاد حیدر، گلوکار ارشد محمود،میوزک ڈائریکٹر محبوب اشرف اور آرگنائزر اختر سلطان، گلوکار سلیم شہزاد، سینئر صوبائی وزیر پیر مظہرالحق، صوبائی وزیر کھیل ڈاکٹر محمد علی شاہ، اصلاح الدین، سمیع اللہ، حنیف خان، حسن سردار، ایڈمنسٹریٹر صدر ٹاؤن مختار حسین، پاکستان فلم اینڈ ٹی وی جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے صدر اطہر جاوید صوفی، سیکریٹری عبدالوسیع قریشی اور دیگر عہدے داران نے بھی معین اختر کے انتقال پر شدید د کھ اور صدمے کا اظہار کیا ہے۔ ممبر سندھ کونسل پی پی پی سہیل سمیع دھلوی، میر ہزارخان بجارانی اور دیگر نے بھی معین اختر کیلئے دکھ کااظہار کیا۔ انجمن ترقی اردو پاکستان کے نائب معتمد اور دائرہ ادب و ثقافت کے چیئرمین پروفیسر اظفر رضوی، پاکستان آرٹس کونسل کے اعزازی سیکریٹری پروفیسر اعجاز احمد فاروقی، فلمساز و ہدایتکار جاوید شیخ،سید سلطان احمد، ایم نسیم، محمد حسیب خان، حاجی غلام محمد خان،عالمگیر شیخ، گل فراز، احمد خان، امین یوسف، سابق ایم پی اے عبدالقدوس اور دیگر نے بھی ان انتقال پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔
معین اختر دنیا بھر کے اردو زبان سمجھنے والے افراد کو غمزدہ کر گئے ہیں ان کے قریبی ساتھی اور معروف اداکار بہروز سبزواری کا کہنا تھا کہ اُن کے خاندان والوں کے لیے تو یہ بہت بڑا دکھ ہے اور یہ ہم سب ساتھیوں کے لیے بھی یہ بہت بڑا دکھ اور المیہ ہے۔ ہم نے بڑا وقت ساتھ گزارا ہے معین اختر بہت خاص شخصیت کے مالک تھے ، دعوتوں میں بہت کم جایا کرتے تھے ان کی اپنی دنیا اپنے کمرے اور کام کی حد تک تھی، وہ ضرورت مند افراد کی خصوصی اعانت کیا کرتے تھے ، بہت سے ساتھی فنکار اس بات کی تائید کریں گے۔
معین اختر کے انتقال پر بولی ووڈ کے معروف مزاحیہ اداکار جانی لیور کا کہنا تھا کہ تمام ہندوستانی فنکاروں کو اس خبر سے صدمہ پہنچا ہے سب کا خیال ہے کہ معین اختر بہت بڑے فَن کار تھے اور ایسے فَن کار بہت کم پیدا ہوتے ہیں یہ برسوں میں پیدا ہونے والے آرٹسٹ تھے یہ میرے لیےفخر کی بات ہے کہ میں معین اختر کو جانتا ہوں اور اپنے کیریئر کا آغاز ان سے متاثر ہو کر ہی کیا ، میرے لیے وہ بہت بڑے شخص ہیں خدا ان کو جنت نصیب کرے ان کا فَنکی دنیا میں بہت بڑا حصّہ ہے۔
معین اختر کے فنّی کیریئر کا مختصر جائزہ
: ٹیلیویژن سیریلز
روزی،ڈالر مین،مکان نمبر 47،ہاف پلیٹ،فیملی93،عید ٹرین،بندر روڈ سے کیماڑی،سَچ مُچ،آنگن ٹیڑھا
ٹیلیویژن شوز:
شوشا،شو ٹائم،سٹوڈیو ڈھائی،سٹوڈیو پونے تین،لوز ٹاک،معین اختر شو
گانے اور البم:
 تیرا دِل بھی یوں ہی تڑپے (البم:تیرا دِل بھی یوں ہی تڑپے)
چھوڑ کے جانے والے    (البم:تیرا دِل بھی یوں ہی تڑپے)
چوٹ جِگر پہ کھائی ہے    (البم:تیرا دِل بھی یوں ہی تڑپے)
رو رو کے دے رہا ہے    (البم:تیرا دِل بھی یوں ہی تڑپے)
دَرد ہی صِرف دِل کو ملا   (البم:تیرا دِل بھی یوں ہی تڑپے)
دِل رو رہا ہے         (البم:تیرا دِل بھی یوں ہی تڑپے)
ہوتے ہیں بے وَفا      (البم:تیرا دِل بھی یوں ہی تڑپے)
معین اختریقینا ایک بڑے اداکار اور صداکار تھے لیکن اس سے کہیں زیادہ وہ ایک اچھے انسان تھے۔ وہ جس شعبے سے وابستہ تھے وہاں انسانی خوبیاں برقرار رکھنا ایک مشکل کام ہے لیکن اپنی خوبیوں کے حوالے سے وہ اپنی زندگی میں بھی نیک نام تھے اور مرنے کے بعد بھی ہر زبان پر ان کا چرچا بھلائی کے ساتھ ہے۔
معین اختر کا جنازہ جنید جمشید پڑھتے ہویے
یہ ایک مسلمان کے لیے جنتی ہونے کی علامت ہے۔ بہت سے لوگ اس بات کے گواہ ہیں کہ وہ بڑی خاموشی کے ساتھ ضرور ت مندوں کی مدد کرتے تھے‘ پیسے سے بھی اور ذاتی تعلقات کے حوالے سے بھی۔ ان کے بارے میں عموماً یہ کہا جاتا تھا کہ وہ ایک مزاحیہ اداکار ہیں لیکن وہ ایک لیجنڈ اور منفرد اداکار تھے۔ انھوں نے تھیٹر‘ فلم‘ ٹی وی ہر جگہ اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا لیکن پھکڑپن اور ابتذال سے دور رہے ورنہ کامیڈین عموماً اِس عیب میں مبتلا ہیں۔معین اختر غمگین اور افسردہ لوگوں کے ہونٹوں پر مسکراہٹیں بکھیرتے رہے۔ اللہ ان کے نیک اعمال کو قبول کرے اوران کی خطاؤں سے درگزر فرمائے۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

تحریر: رحمان محمود خان
....٭٭٭....

منگل، 18 جنوری، 2011

تیونس میں چنبیلی انقلاب۔۔۔۔ تحقیقی فیچر

0 comments

تیونس میں”چنبیلی انقلاب

خصوصی فیچر | تحریر وتحقیق: رحمان محمود خان

          انگاروں میں گھری دہکتی آگ کو ذرا سے ہوا کے جھونکے سے بھڑکایا جا سکتا ہے ‘جو آن کی آن میں جنگل کے جنگل کا صفایا پھیر سکتی ہے۔اکثر اوقات سننے میں آتا ہے کہ فلاں ملک کے جنگل میں اچانک آگ بھڑک اٹھی۔حالانکہ وہ آگ اچانک نہیں بھڑکتی۔اس کے لیے وہاں تمام لوازمات موجود ہوتے ہیں۔جب سورج کی کرنیں مخصوص زاویے سے درخت کی شاخوں سے گزرتی ہوئی پتھروں پر پڑتی ہیں تو تپش اور لُو کی موجودگی میں ماحول شدید گرم ہوجاتا ہے اور ان پتھروں کے پاس خزاںرسیدہ پتے آگ کے لیے ایندھن کا کام کرتے ہیں۔آناً فاناً آگ پورے جنگل کو نگل جاتی ہے۔یہ بھی ایک ارتقائی عمل ہے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر چیز کو زوال ہے۔اگر اس کی مثال جنگل سے نکال کر نوآبادیوں پر لاگو کریں تو حالات مختلف نہیں۔ظلم و بربریت،ناانصافی،لوٹ کھسوٹ،عدم برداشت،اقربا پروری اور کرپشن ایسے عناصر ہیں جو اس آگ کو بھڑکانے میں فعال کرادر ادا کرتے ہیں۔بے حس اقوام تو بے حسی اور مظلومیت کی چادر اوڑھے حالات کے خود بخود بدلنے کا انتظار کرتے رہتے ہیں اور آخرکار انتظار اور ظلم سہتے سہتے سو جاتے ہیں۔جب کہ بیدار اقوام چند ثانیے ٹھہر کر ماحول کا جائزہ لیتی ہیں اور اک بہانہ تلاش کر کے تختہ الٹ دیتی ہیں۔قارئین!کچھ ایسا ہی احوال افریقہ کے مسلم ملک تیونس(تیونسیا)میں ہوا جو کہ اکیسویں صدی کا پہلا انقلاب اور کرپٹ حکمرانوں کے لیے الٹی میٹم کی حیثیت رکھتا ہے۔مغربی دنیا کے لاڈلے،کرپٹ اورعرب مملکت کے سربراہ زین العابدین بن علی کوعوامی پرزور احتجاج کی بناءپر تیونسیا(تیونس) پر 23سا ل تک حکومت کرنے کے باوجود ملک چھوڑ کر فرار کا راستہ اختیار کرنا پڑا۔
          گزشتہ جمعہ کو تیونس کے جابر اور کرپٹ صدر زین العابدین بن علی کو شدید احتجاج کا سامنا کرنا پڑا جس کے باعث صدر نے اپنے اقتدار کو طول دینے کی بجائے راہِ فرار اختیار کرنے میں ہی عافیت جانی۔تیونس کی عوام کو ظالم حکومت سے چھٹکارا مل گیا۔انقلابِ تیونس کے داعیوں نے اپنی جان کی پرواہ کےے بغیر یہ کارنامہ انجام دیا اور تاریخ کے اوراق پر انقلاب ِتیونس کا نام ثبت کردیا۔اس انقلاب کو Jasmine Revolutionیعنی چنبیلی انقلاب سے موسوم کیا جارہا ہے۔چنبیلی انقلاب محض تین روزیا تین ہفتوں کی بات نہیںبلکہ تیونس میں زبردست عوامی انقلاب برسوں سے روا رکھے گئے ناروا سلوک اور ظلم کی پرورش کی بدولت آیا۔غریب عوام پر تیونسی حکمران نے23 سال تک زیادتیاںروا رکھیں۔ آج اسی عوام نے23سال تک بلا شرکت غیرے صدارت کے مزے لوٹنے والے صدر زین العابدین بن علی کو ملک بدر ہونے پر مجبور کردیا۔قارئین!انقلاب کے لیے حالات سازگار نہیں ہوتے۔ظالم حکمران ہی اسباب پیدا کرتے ہیں۔یہ اشارہ ہے اس واقعہ کی طرف جو ناجانے ہر روز تیونس کی غریب عوام کو پیش آتا ہوگا اور اس واقعے کے رونما ہونے سے انقلاب کی راہ ہموار کردی۔تیونسی عوام نے محض 3ہفتے کی جدوجہد سے ملک میں انقلاب بپا کر دیا۔
گزشتہ سال17دسمبر2010ع کوتیونس کے دارالحکومت میں وفاقی پولیس نے ایک26سالہ گرایجویٹ محمد بن ابو عزیز کو رشوت نہ دینے کی بناءپر اس کی پھلوں کی ریڑھی توڑ دی اور سامان ضبط کرلیا۔
18دسمبر2010ع کومحمد بن ابو عزیز نے دلبرادشتہ ہو کر پارلیمنٹ کے سامنے خود کو آگ لگالی،اسے بروقت ہسپتال لے جایا گیا۔
19دسمبر2010ع کوتیونس کے وسطی علاقوں میں اس واقعے کے خلاف عوام اٹھ کھڑے ہوئے کیوں کہ غریب طبقے ساتھ ایسے واقعات کا پیش آنا معمول بن چکا تھا۔احتجاج کا نا رکنے والا سلسلے کا آغاز ہو گیاحالات بدستور ابتری کی طرف جا رہے تھے۔اس کے دوران صدر زین العابدین بن علی نے پولیس اور فوج کو فائرنگ کا حکم دے دیا۔
جس کے نتیجے میں24دسمبر2010ع کو 18سالہ یونیورسٹی کا طالبِعلم پولیس کی فائرنگ کی زد میں آکر جاں بحق ہوگیا۔اب عوام کے پاس ملک کے کرپٹ ترین حکمرانوں کو نکال باہر کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔عوام میں خوف و ہراس پھیلانے میںناکام صدر نے گرفتاریوں اور فائرنگ کے سخت سے سخت احکامات صادر کر دیے۔نتیجتاً100کے لگ بھگ افراد جاں بحق ہو گئے۔
دوسری طرف4جنوری2011ع کو خود سوزی کرنے والے محمد بن ابو عزیز بھی انتقال کر گئے۔اس واقعے سے عوامی مظاہرے شدت اختیار کر گئے۔عوام سڑکوں پر سراپا احتجاج بن گئے اور سرکاری املاک کو شدید نقصان پہنچانے لگے۔
8سے10جنوری2011ع تک صرف تین روز کے دوران ریلیوں اور ہنگاموں کا سلسلہ بدستور جاری رہا جس کے نتیجے میں50سے 60افراد نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے ثابت کردیا کہ انقلاب خون مانگتا ہے۔ان شہداءکے لال خون نے عوام میں مزیدغم و غصے کی لہر دوڑا دی،اب تیونسی قوم اس خون کو معاف کرنے یا مصلحت کا شکار ہونے کی بجائے انقلاب پر ڈٹی رہی۔
10جنوری2011ع کو صدر زین العابدین بن علی اور ان کے حامیوں نے ایک چال چلی۔صدر زین العابدین بن علی نے اعلان کیا کہ شورشوں اور فساد کے اختتام تک ملک بھر کے تعلیمی اداروں کو بند رکھنے کا حکم دیا اور ساتھ ہی ےہ بھی اعلان کیا کہ3لاکھ نئی آسامیاں پر ملک کے نوجوانوں کو تعینات کیا جائے گا۔
12جنوری2011ع کوصدر زین العابدین بن علی کے کہنے پر وزیرِاعظم محمود غنوشی نے وزیرِداخلہ رفیق بلحاج قاسم کو برطرف کردیا اور اعلان کیا گیا کہ کرپشن کے خلاف تحقیقات ہوںگی اور ملوث افراد کو کیفرِکردار تک پہنچایا جائے گا۔اس کے علاوہ گرفتار کیے گئے تمام افراد کی رہائی کے احکامات صادر کیے گئے‘لیکن اب بہت دیر ہو چکی تھی۔عوام ان اقدامات کو صدر زین العابدین بن علی کی چال سمجھ کر انقلاب سے توجہ ہٹانے کے لیے بالکل بھی تیار نہ ہوئے۔صدر زین العابدین بن علی کے ےہ آخری اعلانات ثابت ہوئے۔اسی روز ہنگاموں کے دوران پولیس کے ہاتھوں 8افراد کی مزید ہلاکتیں ہوئیں۔جس کے بعد ریلیوں کا سلسلہ روکنے کے لیے کرفیو کا نفاذ عمل میں آیا۔اقوامِ متحدہ بھی اس معاملے میں کود پڑا اور تشدد کے واقعات کی آزاد اور شفاف تحقیقات کروانے کا مطالبہ کیا۔
13جنوری2011ع کو فوج کو ہٹا کر صدر زین العابدین بن علی نے پولیس کو مظاہرین پر فائرنگ کرنے سے روک دیا اور گرفتار افراد کی رہائی کا حکم دیا۔
14جنوری 2011ع کو عوام نے صدارتی محل کا گھیراؤ کرنے کے لیے پیش قدمی کی تواس موقع پر پولیس نے اپنی آخری کوشش کی لیکن بے سود۔اس اثناءمیں موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے23سال سے مسندِاقتدار سے چمٹے رہنے والے صدر زین العابدین بن علی اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ فرار ہو گئے۔اس کے بعدتوتیونس کا نقشہ ہی بدل گیا۔صدر زین العابدین بن علی کے جانے پر تیونس کی بہادر عوام جشن منانے لگے اور مشاورت سے عوامی مسائل حل کرنے والی حکومت کی تشکیل نو کا آغاز ہو گیااور آخری اطلاعات آنے تک عوام مکمل انقلاب کے خواہا ں ہیں۔دلچسپ اور حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ صدر زین العابدین بن علی کو ان کے پیارے ملک فرانس نے سیاسی پناہ دینے سے انکار کردیا۔مزید براں صدر اور ان کی اہلیہ اور دوسرے قریبی لوگوں کے اثاثے منجمند کر دیئے۔
 ابتدائی تعلیم سوِسے سیکنڈری سکول سے حاصل کی۔زمانہ طالبِ علمی کے دوران ہی سیاست سے شغف ہو گیا۔زین العابدین نے قومی مزاحمتی تحریک کے لیے ایک تنظیم نییودستور پارٹی میں شمولیت کر لی۔جس کی بناءپر اکثر اوقات سکول سے غیر حاضر رہتے جس کے باعث زین العابدین کا نام کئی بار سکول سے خارج بھی ہوا۔سیکنڈری سکول سے تعلیم مکمل کر نے کے بعد زین العابدین نے ڈگریوں کی بھرمار کردی۔مختلف فوجی اداروں سے تعلیم حاصل کرتے رہے جس میں سپیشل انٹرسروسز سکول۔ فرانس،آرٹلری سکول ۔فرانس،سینئر انٹیلی جنس سکول میری لینڈ۔ امریکااوراینٹی کرافٹ فیلڈ آرٹلری ٹیکساس ۔امریکا شامل ہیں۔صدر زین العابدین بن علی کے فوجی کیرئیر کا باقاعدہ آغاز1964ع سے ہوتا ہے۔جب پیشہ وارانہ قابلیت کے حصول کے بعد تیونسیا کی فوج میں بطور سٹاف آفیسر تعینات ہوئے۔فوج کی سروس کے دوران ملٹری سیکیورٹی کا ادارہ قائم کیا اور مسلسل10سال تک مختلف فوجی آپریشنز میں حصہ لیتے رہے۔صدر زین العابدین بن علی نے مراکش اور سپین میں بطور فوجی اتاشی کے بھی فرائض انجام دیئے۔1977ع کو نیشنل سیکیورٹی کے جنرل ڈائریکٹر منتخب کیے گئے۔
          سابق صدر زین العابدین بن علی اور اس کے خاندان پر کرپشن اور قومی دولت کو اپنے اکاؤنٹس میں منتقل کرنے اور تیونس کے وسائل پربےجا قابض ہونے کے علاوہ ملک میں بے روزگاری،صنعت کی زوال پزیری کے بیش بہا الزام ہیں۔اس خاندان کی اندھا دھند کرپشن کے باعث تیونس جیسے باوسائل ملک میں بے روزگاری،عدم تعاون کی فضا،رشوت خوری،ناانصافی،کرپشن اور مہنگائی میں روز بروز اضافہ ہورہا تھا۔زین العابدین کے بہت سے رشتہ دار کرپشن کرکے عدم تحفظ کو وجہ بناتے ہوئے پہلے ہی تیونس کو خیرباد کہہ کر بیرونِ ملک تیونسی عوام کی دولت پر مزے لوٹ رہے ہیں۔
صدر زین العابدین بن علی کی بیوی لیلیٰ بن علی (سابقہ خاتون ِاوّل)باسمہ فاؤنڈیشن کی چیئرپرسن تھیں۔جو کہ بظاہر ملک میں بے روزگاری ،کرپشن کے خاتمے اور معاشرے میں سماجی و فلاحی تنظیم کے طور پر کام کرتی تھی لیکن اصل حقائق کچھ اور ہیں۔یہ تنظیم حکومت سے فنڈ جاری کروا کر آپس میںبندر بانٹ کر کے کاغذوں کے پیٹ بھر دیتی اور کرپشن جوں کی توں رہتی۔لیلیٰ بن علی کے اپنے پہلے خاوند سے تین بچے نسرین،حلیمہ اور محمد زین ہیں اس کے علاوہ تیونس کے سابق صدر زین العابدین بن علی کی اپنی پہلی بیوی سے تین بیٹیاں غزوہ،دورسف اور سائرین ہیں۔تیونس کے سابق صدر زین العابدین بن علی اب تک تیونس کے دوسرے صدر تھے۔تیونس کے صدور کی تفصیل کچھ یوں ہے:۔

سیاسی جماعت
دورانیہ
نام صدور
(سوشلسٹ دستورین پارٹی (1964-1987
25جولائی1957ع تا 7نومبر1987ع
 (نییو دستور پارٹی (1957-1964
حبیب بورقیبہ
(آئینی جمہوری پارٹی(1988-2011
نومبر1987ع تا 14جنوری2011ع7
 (سوشلسٹ دستورین پارٹی (1987-1988)
زین العابدین بن علی
آئینی جمہوری پارٹی
14جنوری2011ع تا15جنوری2011ع
محمود غنوشی

15جنوری2011ع تا حال
(فوآاد مبازا (قائم مقام

          افریقی ملک تیونس کے مفرور صدر زین العابدین کرپشن کی وجہ سے بدنام ضرور ہوئے لیکن دہشت گردی کی روک تھام اور خواتین کے حقوق کی اچھی صورتحال ان کے اچھے کام میں شمار کیے جاتے ہیں۔یہ تفصیلات امریکی مراسلوں سے پتہ چلتی ہیں جو وقتا ًفوقتاً تیونس سے واشنگٹن بھیجے جاتے رہے۔ایسا ہی ایک مراسلہ اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس کے دورہ تیونس سے پہلے لکھا گیا۔اگست 2008ع میں لکھے گئے اس مراسلے میں بتایا گیا کہ تیونس ایک طرف خاتون اول کے گھر والوں کی جانب سے کرپشن سے پریشان ہے تو دوسری طرف صدر زین العابدین نے پڑوسی ملکوں کے مقابلے میں دہشت گردی کے خلاف سخت اقدامات کیے اور اپنے ملک کو عدم استحکام سے باہر نکالا۔ مراسلے میں لکھا گیا کہ تیونس نے خواتین کے حقو ق کی بہتری کے لیے جو کام کیے اس نے اس خطے کو علاقے کے لیے رول ماڈل بنادیا۔زین العابدین کے دور کی اچھائیاں اپنی جگہ لیکن کرپشن کی برائی ایسی ہے جو مٹائے نہیں مٹتی اور اکثر مراسلوں کا حصہ رہی۔


جولائی 2009ع کو بھیجے گئے ایسے ہی ایک مراسلے میں امریکی سفیر کی صدر زین العابدین کے داماد کی دعوت میں شرکت کی تفصیلات بتائی گئیں۔اس میں بتایا گیا مہمانوں کی آؤبھگت کے لیے بے تحاشا اسٹاف رکھا گیا۔جگہ کو خوبصورت بنانے کے لیے نوادارت اور رومن اسٹائل کے ستون رکھے گئے۔یہاں تک کہ شیر کا سر بھی رکھا گیا جس میں سے پانی فوارے کی شکل میں تالاب میں گرتا تھا۔ اس دعوت میں درجن بھر ڈشیں رکھی گئیں جس کے لیے آئس کریم فرانس سے لایا گیا۔مراسلے میں بتایا گیا کہ زین العابدین کے دامادنے اس وقت سے ایک شیر پال رکھا ہے جب وہ چند مہینوں کا تھا۔اس میں بتایا گیا کہ یہ شیر روزانہ چار مرغیاں کھاتاہے۔
          تیونس جہاں یورپین ممالک کا اہم اتحادی تصور کیا جاتا تھا وہاںبی بی سی نے تیونس کو خطے کا ایک اہم کھلاڑی قرار دیا ہے۔بی بی سی کی ایک رپورٹ کی مطابق شمالی افریقہ کے وسط میں واقع ہونے کی وجہ سے جمہوریہ تیونس کو صدیوں سے استعمال ہوتے آ رہے اہم بحری راستوں کی قربت کا اعزاز حاصل ہے۔اپنے اپنے وقتوں میں رومی، عرب، عثمانی ترک اور فرانسیسی حکمران اس کی سٹریٹیجک اہمیت کے پیش نظر ہی خطے پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے اس پر قبضہ کرتے رہے ہیں۔جمہوریہ تیونس پر فرانس کا نوآبادیاتی راج 1956ع میں ختم ہوا جس کے بعد حبیب بورقیبا نے تیس سالوں تک حکمرانی کی۔
مصدقہ اطلاعات کے مطابق تیونس کا پہلا صدر حبیب بورقیبہ تحریکِ ِپاکستان کے دوران کراچی میں ایک مدت تک جلا وطنی کی زندگی گزارتا رہا تھا۔حبیب بورقیبہ تیونس کی تحریکِ آزادی کا اولین لیڈر تھا۔اس رہنما کے بارے میں کہا جاتاہے کہ وہ پاکستان کو اپنا گھر سمجھتا تھا اورکراچی میں بلاناغہ ایک درزی کی دکان پر محفل جمایا کرتا تھا اور اس وقت کے حالات و واقعات پر بحث مباحثہ کےا کرتا تھا۔ان کے دور میں ملک میں سیکولر خیالات کو فروغ ملا جن میں خاص طور پر عورتوں کی ترقی اور حقوق پر توجہ دی گئی۔ ایک سے زیادہ شادیوں پر پابندی لگی اور لازمی مفت تعلیم جیسے اقدامات شامل ہیں۔ اسی لیے عرب دنیا میں سب سے زیادہ تیونس میں خواتین کے حقوق کو تحفظ حاصل ہے۔اگرچہ صدر زین العابدین کے دور میں تیونس میں صحافت کی آزادیوں کے کچھ قوانین متعارف کرائے گئے اور کئی سیاسی قیدیوں کو رہا بھی کیا گیا لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق تیونس کے حکام، حکومت کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کرتے اور حکومت کے مخالفین اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو ہراساں کرتے ہیں۔حبیب بورقیبا اپنے دور اقتدار میں اسلام مخالف بنیاد پرستانہ پالیسی پر زور دینے کے ساتھ ساتھ اپنے اختیارات کو بھی بڑھاتے رہے جس کے نتیجے میں وہ مطلق العنان حکمران بن بیٹھے تھے۔بالآخر1987ع میں اس بنیاد پر ان کا تختہ الٹ دیا گیا۔اس کے بعد زین العابدین بن علی کے اقتدار کی راہ ہموار ہوئی اور وہ صدارت نشین ہوگئے۔انہوں نے بھی مذہبی شدت پسندوں کے خلاف سخت گیر پالیسی اپنائے رکھی لیکن انہیں ورثے میں جو ملک ملا تھا وہ آج کے جمہوریہ تیونس کے مقابلے میں معاشی طور پر مستحکم تھا۔اگرچہ ان کے دور میں تیونس میں صحافت کی آزادیوں کے کچھ قوانین متعارف کرائے گئے اور کئی سیاسی قیدیوں کو رہا بھی کیا گیا لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق جمہوریہ تیونس کے حکام، حکومت کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کرتے اور حکومت کے مخالفین اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو ہراساں کرتے ہیں۔جب زین العابدین بن علی کی پارٹی نے لگاتار تین انتخابات میں کامیابی حاصل کی، وہ بھی99.9 فیصد ووٹوں کے ساتھ تو نہ صرف ملک کے اندر بلکہ بیرون ملک بھی اس پر افسوس کا اظہار کیا گیا۔پھر انہوں نے2004ع اور اس کے بعد 2009ع میں اپنے انتخابات میں حصہ لینے کا اہل بننے کے لیے آئین میں ترمیم بھی کی جس کی حزب اختلاف نے سخت مذمت کی۔اپنے پڑوسی ملکوں کے مقابلے میں جمہوریہ تیونس زیادہ خوشحال ملک ہے اور اس کے یورپی ملکوں کے ساتھ مضبوط تجارتی تعلقات ہیں۔ ملک کی افرادی قوت کا بڑا حصہ زراعت کے شعبے سے منسلک ہے جہاں زیادہ تر بارانی علاقوں میں کھجوریں اور زیتون کی کاشت کی جاتی ہے۔اس کے علاوہ ہر سال لاکھوں یورپی شہری تیونس کے سیاحتی مقامات کا رخ کرتے ہیں۔حیرت انگیز بات یہ بھی ہے کہ آج سے کچھ عرصے پہلے تک جمہوریہ تیونس میں سیاسی تشدد کے واقعات شاذو نادر ہی تھے لیکن حالیہ برسوں میں مسلح اسلامی شدت پسند حکومت کے لیے مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔2002ع میں تیونس میں یہودیوں کی ایک عبادت گاہ پر خودکش حملہ ہوا تھا جس میں21 لوگ مارے گئے تھے اور اس کے بعد ملک میں سیاحوں کی تعداد میں بڑی حد تک کمی واقع ہوگئی تھی۔2006-2007کے دوران سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں ایک درجن مشتبہ شدت پسند مارے گئے تھے۔تیونس کے وکلاءکا کہنا ہے کہ2003ع میں گرفتاری کے خصوصی اختیارات ملنے کے بعد حکام نے شدت پسند گروہوں سے تعلق کے شبہے میں سینکڑوں شہریوں کو گرفتار کیا ہے۔2010-2011 کے دوران بے روزگاری اور سیاسی آزادیوں پر پابندیوں کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہروں کو کچلنے کے لیے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا گیا ہے جس میں درجنوں لوگ مارے گئے ہیں لیکن عوامی مقبولیت کی وجہ سے سڑکوں پر احتجاج کا سلسلہ جاری رہا جس کے نتیجے میں بالآخر صدر زین العابدین کو ملک سے جان بچا کر بھاگنا پڑا ہے اور اب ان کی جگہ وزیر اعظم نے اقتدار سنبھالا ہوا ہے۔ محمودغنوشی نے حکومت سنبھالتے ہی ایک بیان دیا جس میں انھوں نے کہا کہ سابق صدر زین العابدین بن علی عارضی طور پر اپنے فرائض سے سبکدوش ہوئے ۔جب کہ عدالت ِعالیہ نے اس بیان کی نفی کرتے ہوئے اپنے تفصیلی بیان میں یہ کہا:
The Constitutional Court of Tunisia determined that Ben Ali was not "temporarily unable" to exercise his duties and that the presidency was in fact vacant. The arrangements he had made with the Prime Minister before leaving the country were found to be unconstitutional under article 57 of the constitution. The country's constitutional court, the highest legal authority on constitutional matters, announced the transition on Saturday, saying Fouad Mebazaa (the Speaker of Parliament) had been appointed interim president.
Mebazaa took the oath in his office in parliament, swearing to respect the constitution in the presence of his senate counterpart Abdallal Kallel and representatives of both houses. It was also also announced that the speaker of parliament would occupy the post of president temporarily and elections would be held within a period of between 45 and 60 days.
تیو نس کے وزیراعظم نے نئی اتحادی حکومت کا اعلان کر دیا۔ صدر زین العابدین کے جانے کے بعد نئے وزیراعظم محمود غنوشی نے نئی اتحادی حکومت کا اعلان کیا ہے۔ جس میں تین پارٹی لیڈران کے علاوہ اپوزیشن کے رہنماوں اور سابقہ حکومت کے چھے وزراءکو حکومت میں شامل کیا گیا ہے جن میں وزارت داخلہ ،وزارت خزانہ اور وزارت دفاع کے وزیروں کو تبدیل نہیں کیا گیا ،اس کے علاوہ تمام کالعدم پارٹیوں کو تسلیم کرنے اور سیاسی سرگرمیاں بحال کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ نئی حکومت نے تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔
         تیونس کے سابق صدر زین العابدین کے مستعفی اور سعودی عرب فرار ہونے کے بعد وہاں قائم ہونیوالی عبوری حکومت کو فوج کی حمایت بھی حاصل ہے۔سابق صدر کے استعفیٰ کے بعدقائم ہونیوالی عبوری حکومت کی جانب سے قومی حکومت بنانے کا اعلان آج متوقع ہے۔غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق تیونس کی فوج عبوری حکومت کا ساتھ دے رہی ہے۔
فوج نے سابق صدر کے حامیوں اور حکومتی عہدے داروں کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارنے شروع کردئیے ہیں جبکہ صدارتی محل کا گھیراؤبھی کیااور زین العابدین کے سابق سکیورٹی چیف علی سیریاتی اور ان کے ساتھیوں کو گرفتار کر لیا۔ سرکاری ٹی وی کے مطابق ان افراد پر لوگوں کو اکسانے اور حکومت کےخلاف سازش کا الزام ہے جبکہ سابق وزیر داخلہ رفیق بلحاج قاسم کو بھی گرفتار کرلیا گیا۔پرتشدد واقعات کے دوران سابق صدر زین العابدین کی اہلیہ کے بھتیجے عماد طرابلسی کو خنجر مار کر ہلاک کردیا گیا۔ رپورٹس کے مطابق تیونس کی فوج ملک میں امن و امان بحال کرنے کے لیے عبوری حکومت کے ساتھ ہے۔تیونس میں کرپشن اور بے روز گاری سے تنگ عوام کے احتجاج اور مظاہروں نے زین العابدین کو حکومت چھوڑنے ا ور ملک سے فرار ہونے پر مجبور کردیاتھا۔ سابق صدر زین العابدین ہفتے کے روزاپنے چھے افراد پر مشتمل اہلِ خانہ کے ہمراہ جدہ ائیرپورٹ پراترے اور سعودی عرب میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے۔تازہ ترین اطلاعات سے معلوم ہوتا ہے کہ سعودی حکومت نے انھیں کسی قسم کی سیاسی سرگرمیوں کے لیے اپنی سرزمین استعمال کرنے اجازت نہیں دی۔
          تقریبا بیالیس برس سے لیبیا پر حکمرانی کرنے والے راہ نما معمر قذافی نے پڑوسی ملک تیونس میں ہنگاموں کا ذمے دار وکی لیکس کے انکشافات کو قرار دیا ہے۔ برطانوی اخبار گارڈین کے مطابق قذافی جو تیونس کے مفرو ر صدر زین العابدین کے قریبی ساتھی ہیں نے تیونس کی صورت حال پر خطاب کیا۔صدرقذافی نے کہا کہ زین العابدین کی حکومت ختم ہونے سے انہیں بہت تکلیف پہنچی ہے۔انہوں نے دعویٰ کیاکہ احتجاج کرنے والے وکی لیس کی جانب سے زین العابدین ،ان کے گھروالوں اور حکومت کی جانب سے کرپشن کی کہانیاں جاری کرنے سے گمراہ ہو ئے۔قذافی نے الزام لگایا کہ امریکی سفیروں نے یہ مراسلے تیونس میں افرا تفری پھیلانے کے لیے لکھے۔گارڈین کے مطابق تیونس کی صورت حال سے عرب ملکوں کے وہ رہنما پریشان ہیں جو کئی دہائیوں سے حکومت کر رہے ہیں۔اخبار نے مشرق وسطیٰ کے لیے اپنے ایک نمائندے کی رپورٹ کا حوالہ دیا ہے کہ قذافی نے یہ تقریر ایسے وقت کی جب لیبیا کے شہر بیضا میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔شہریوں نے سرکاری عمارتوں پر حملے بھی کیے۔
          تیونس کی طرح رفتہ رفتہ ایسے واقعات مصر میں بھی رونما ہورہے ہیں۔پچھلے 30سے50سال کے دوران مصر میں بھی ایسی ہی حکومت قائم ہے اور عوام کے حقوق پر غاصبانہ قبضہ کیے ہوئے ہے،تیونس کے چنبیلی انقلاب کے دوران ہی مصر کے ایک گرایجویٹ نوجوان نے مہنگائی ،بے روزگاری اور غربت سے تنگ آکر خود کو پارلیمنٹ کے سامنے جلا لیا۔اب عوامی احتجاج خطے کے دوسرے ممالک میں بھی پھیل رہا ہے۔اسی طرح جنوبی سوڈان میں ریفرنڈم کے ابتدائی نتائج سے لگتا ہے کہ وہاں لوگوں نے شمال سے الگ ہو کر ایک نیا ملک بنانے کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ ریفرنڈم کے مکمل نتائج اگلے ماہ تک حاصل ہونگے لیکن توقع کی جا رہی ہے کہ خطے میں شمال سے علیحدگی کے حق میں بڑی تعداد میں لوگوں نے ووٹ ڈالے ہیں یورپ میں رہنے والے جنوبی سوڈان کے لوگوں میں سے 97فیصد نے ایک علیحدہ ملک کے حق میں ووٹ ڈالے ہیں۔21 سالہ خانہ جنگی 2005ع میں امن معاہدے کے بعد بند ہوئی تھی اس امن معاہدے میں شامل شق کے تحت ریفرنڈم کرایا گیا ہے اس ریفرنڈم میں ووٹنگ کے اختتام پر جنوبی سوڈان کے عیسائی رہنما بشپ پال نے بگل بجایا ان کے مطابق یہ بگل مسلمان اکثریت کے شمالی سوڈان کی حکمرانی کے اختتام کا پیغام ہے۔اسی طرح اٹلی کے وزیرِاعظم کو کرپشن کے الزامات کا سامنا کرنے کی بدولت پارلیمان نےوزیرِاعظم کے استثنیٰ کو غیر موثر قرار دیتے ہوئے انھیں برطرف کردیا اور عدالتی کمیشن کا سامنا کرنے کا عندیہ دیاہے۔
          تیونس کے عوام نے اقوامِ عالم کے کرپٹ حکمرانوں سے چھٹکارے کے لیے نئی روایت کا اجراءکیا ہے۔تیونس کا چنبیلی انقلاب اور اکیسویں صدی کا پہلا انقلاب اس بات کی طرف نشاندہی ہے کہ اگر کرپٹ حکمران خود کو نہ بدلیں گے ۔اپنی روش پر بدستور قائم رہیں گے تو عوام سب کچھ خس و خاشاک کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔جب کہ امریکا،فرانس اور دوسرے اتحادی ممالک نے ایک بار پھر یہ ثابت کردیا ہے کہ یورپی ممالک کسی کے اتحادی دوست نہیں بلکہ مفادی دوست ہیں۔
          اب وقت آگیا ہے کہ عوام اپنے حقوق کا جائزہ لیں اور مقتدر طبقہ جمہور اور جمہوریت کو پنپنے کے لیے اپنی آسائشوں کا محاسبہ کرتےہوئےعوام کوتحفظ،روزگار،تعلیم،صحت اور دوسری معیاری سہولیات مہیا کریں۔وطن کی ناموس اسی میں ہے ورنہ انقلاب آخری قدم ہوتا ہے۔

تحریر : رحمان محمود خان 
....٭٭٭....

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *