پیر، 7 اپریل، 2008

اَب میری باری ہے! ۔۔۔۔ کالم

0 comments
اَب میری باری ہے!
تحریر: رحمان محمودخان

گزشتہ دنوں ایک نجی چینل کے پروگرام کومیں سن رہا تھا جس میں میزبان نے بیان کیا کہ آج پاکستان پیپلزپارٹی کے کوچیئرمین(Co-Chairman) آصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی کے اہم راہنما اور بار کونسل کے صدرچوہدری اعتزاز احسن کی سرزنش کی،آصف علی زرداری نے اعتزاز احسن کو کہا کہ جناب آپ جو عدلیہ کی بحالی کی بات کرتے ہیں ،آپ اس وقت کہاں تھے جب میں پابندِسلاسل تھا۔اگر بغور تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ جس عدلیہ کی بحالی کی باتیں کی جارہی ہیں ان میں اکثر جج صاحبان ایسے ہیں جو نواز شریف اورصدر مشّرف کے شروع کے دور میں آصف علی زرداری کوقید میں دیکھنا چاہتے تھے۔جب زرداری کی ضمانت کے کاغذ جمع کرائے جاتے تویہ جج صاحبان ان کاغذات کو ردی کی ٹوکری کی زینت بنا دیتے۔مگر اب حالات بدل گئے ہیں ،سیاسی تاریخ مکمل تبدیل ہو چکی ہے۔جیل میں قید کاٹنے والے آج سج دھج کر کرسی پر جلوہ افروز ہیں اب قسمت نے دوبارہ یاوری کی ہے اور ایک بار پھر پاکستان پیپلز پارٹی کی باری آئی ہے لیکن اس پیچ کا موقع آصف علی زرداری کو ملا ہے۔
آصف علی زرداری نے اپنی باری کے لیے اتنا عرصہ انتظار کیا کہ اگر ان کی جگہ کوئی اور ہوتا تو شاید ہار مان جاتا لیکن سپوتِ سندھ نے چوہدری اعتزاز احسن کو یہ یاد دلایا ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو اورپاکستان پیپلز پارٹی نے عدلیہ کی بحالی کے جو وعدے لیے ہیں وہ اپنی جگہ لیکن تمام جج صاحبان اس بات کابھی خیال رکھیں اور اپنے اپنے گریبان میں جھانکیں کہ آج وہی لوگ پیپلز پارٹی اورآصف علی زرداری کے رحم و کرم پر ہیں۔بالآخر اس کڑوے سچ کا کڑوا گھونٹ چوہدری اعتزاز احسن کو پینا ہی پڑے گاکیونکہ ججوں کی بحالی کو اتنا بڑا ایشو بنا دیا گیا ہے جس سے محسوس ہوتا ہے کہ ججز کی بحالی سے ہی مہنگائی اور بجلی جیسے مسائل کا حل ممکن ہے۔ہر 15یا 20کے بعد احتجاج کا ایک نےا روپ سامنے آتا ہے کبھی دھرنے تو کبھی جلوس نکالے جاتے ہیں،پھر افتخار ڈے منایا جاتا ہے۔کبھی لانگ مارچ کا ارادہ بدل کر سیاہ پٹیاںباندھ کر بلیک فلیگ ویک منایا جاتا ہے۔
پچھلے چند ماہ سے پاکستان کے اندرونی مسائل اتنے بڑھ چکے ہیں کہ ہم آئندہ ایک ڈیڑھ سال تک بیرونی مسائل مثلاًمسئلہ کشمیر،افغانستان کا مسئلہ،امریکی افواج کی واپسی اور پاکستانی دریاؤں پر بھارتی ڈیموں کی تعمیرجیسے مسائل پر توّجہ دینے کے قابل نہیں،مہنگائی نے صرف ایک طبقے کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔بجلی کی پیداوار نہیں ہے،گندم کی قلّت ہے،معاشرہ طبقاتی تقسیم کا شکار ہو چکا ہے،سماجی نظام ‘ سامراجی نظام کے زیرِاثر کام کر رہا ہے،میڈیا نے آزادیِ صحافت کا معنی ہی کچھ اور لے لیا ہے،تعلیمی نظام ‘ شعور کی فکر سے آزاد ہے ‘ نوجوان جس نظام میں رہ رہے ہیں اس نظام میں بے حسی انکا شعار بن چکی ہے،لاقانونیت بڑھ چکی ہے اور ناجانے ان گنت مسائل سے لبریز یہ پاکستان باریوں کی سیاست کی بھینٹ چڑھ رہا ہے۔
ان باریوں کی سیاست نے ملک کو عدم استحکام کی اندھی روش پر لا کھڑا کیا ہے۔اب چار پانچ سال کے شور وغل کے بعد انتخابات میںصدرمشّرف کی مخالف جماعتیں کامیاب ہوئیں ہیں تو ان جماعتوں میں بھی اتّحاد ہونے کے باوجودآپسی معاملات میں کہیں نہ کہیں خلا ضرور موجود ہے اور اس خلا میں مفاد بھی موجود ہے ۔ اس بات کا اندازہ وہ شخص بخوبی لگاسکتا ہے جو غیر جانبدار ہو کر تجزیہ کرے ‘سوچے‘ سمجھے۔سابق جج ملک کے مستقبل کو داؤ  پر لگا کر سیاسی جماعتوں کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کر رہے ہیں اوریہی حال سیاستدانوں کا ہے جو آمر انی نظام کو تبدیل کرنے کے لیے ججوں اور وکیلوں کو ہتھیار کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔یہ انتقامی اور ضِد کی سیاست اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ جو ناانصافی آصف علی زرداری کے ساتھ کی گئی اب وہ اس کا جواب بھی دیں گے کیونکہ اب عوام نے ان کو باری دی ہے۔لیکن مجھ ناچیز کاآصف علی زرداری کو یہی مشورہ ہے کہ جس طرح آپ نے ایم کیو ایم اور ان کے شہید کارکنوں کو معاف کیا ہے اس طرح آپ اب پچھلی باتوں اور یادوں کو بھول کر ایک متّحدہ سیاست کی داغ بیل ڈالے،انتقامی سیاست کو یکسر فراموش کر کے ملک کو بحرانوں سے نکالیں اور اپنے ساتھ ساتھ اپنی اتّحادی جماعتوں کی بھی توجّہ اس طرف دلائیں،افہام و تفہیم سے جس طرح وزیرِاعظم کا فیصلہ کیا ہے اسی طرح افہام و تفہیم سے تما م اتّحادی جماعتوں کو قائدین اور صدر مشّرف کو ایک پلیٹ فارم پر یکجا کر لیں۔ تب کہیں جا کر محترمہ بے نظیر بھٹو کی روح کو سکون اور پاکستان کی ڈوبتی ناؤسنبھل پائے گی۔
اس کالم کی توسط سے میں آصف علی زرداری کو یہ باور کرانا چاہوں گاکہ جناب ‘ عوام نے پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کے نعرے روٹی،کپڑا اور مکان کو سنا ‘ ضیاءالحق کے"اسلامی نفاذ" کی بازگشت بھی سنی ‘پاکستان پیپلز پارٹی کی دور اندیش سیاستدان محترمہ بے نظیر بھٹوکی آواز پر دو مرتبہ لبّیک کہا ‘ پھر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف کی جرات اور بے باکی کے نعرے ہم آواز ہو کر لگائے پھر صدر مشّرف اور پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سربراہان کو ” سب ٹھیک ہے‘ ترقّی ہو رہی ہے ‘ خزانہ بھرا ہوا ہے“ کی سر گوشی بھی سنی لیکن یہ سب کچھ ہوا ‘ترقّی بھی ہوئی مگر کہاں؟ آج دو وقت کی روٹی کا مسئلہ بنا ہوا ہے، مہنگائی نے غریب کی پہنچ سے تقریباً ہر شے کو دور کر دیا ہے،اکثریت کے پاس ذاتی مکان نہیں، اسلامی نظام کا نفاذ تو دور کی بات‘ ہم مغرب کی تقلید کررہے ہیں۔
مختصراً یہ کہ آج آپ ایسا نظام نافذالعمل کریں جو غریب کو امیر نہ سہی لیکن اس کا گزارہ ممکن بنا سکے۔عوام کا اس بار آپ کو باری دینے کا مقصد بھی یہ ہے کہ شاید آپ میں وہ دَم ہے جو پچھلے حکمرانوں میں نہیں تھا۔اب فیصلہ کرنا آپ کا کام ہے۔

تحریر: رحمان محمود خان
Feedback:peghaamnews@gmail.com
 
٭٭**٭٭

0 comments:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *