شہشنشاہِ غزل مہدی حسن ہم میں نہ رہے۔۔!!
سُر جس کے سامنے سَرنگوں کھڑے رہتے تھے،آخر وہ سُروں کو یتیم کرکے
چلا گیا
تحریر و ترتیب: رحمان محمود خان
فن ِثقافت کاروشن ستارہ اورشہنشاہِ غزل استاد مہدی حسن بھی دارِفانی سے کوچ کر گئے۔مہدی حسن پچھلے12 سالوں سے پھیپھڑوں کے مرض میں مبتلا تھے۔وہ بارہ برس سے سینے، پھیپھڑوں اور مثانے کے مختلف اَمراض میں مبتلا چلے آ رہے تھے۔مہدی حسن کوسانس لینے میں تکلیف کا سامنا تھاجب کہ دیگر شکایات بھی تھیں۔اطلاعات کے مطابق کچھ عرصے قبل اُن کاسوڈیم لیول بھی بڑھ گیا تھا ،اِس دوران انھیں کئی مرتبہ اسپتالوں میں داخل بھی ہونا پڑا۔
فن ِثقافت کاروشن ستارہ اورشہنشاہِ غزل استاد مہدی حسن بھی دارِفانی سے کوچ کر گئے۔مہدی حسن پچھلے12 سالوں سے پھیپھڑوں کے مرض میں مبتلا تھے۔وہ بارہ برس سے سینے، پھیپھڑوں اور مثانے کے مختلف اَمراض میں مبتلا چلے آ رہے تھے۔مہدی حسن کوسانس لینے میں تکلیف کا سامنا تھاجب کہ دیگر شکایات بھی تھیں۔اطلاعات کے مطابق کچھ عرصے قبل اُن کاسوڈیم لیول بھی بڑھ گیا تھا ،اِس دوران انھیں کئی مرتبہ اسپتالوں میں داخل بھی ہونا پڑا۔
شہنشاہِ غزل استاد مہدی
حسن18جولائی1927 کوبھارتی ریاست راجستھان کے ایک گاوں لُونا میں پیدا ہوئے۔ ان کے
والد اور چچا د ھرپد گائیکی کے ماہر تھے اور مہدی حسن کی ابتدائی تربیت گھر ہی میں
ہوئی۔ خود ان کے بقول وہ کلاونت گھرانے کی سولہویں پیڑھی سے تعلق رکھتے تھے۔1947
میں بیس سالہ مہدی حسن اہلِ خانہ کے ساتھ نقلِ وطن کر کے پاکستان آ گئے ۔کچھ افراد
کی رائے میں آپ کے خاندان نے نقل مکانی کرتے ہوئے چیچہ وطنی،پھر لاہور اورکراچی
میں سکونت اختیار کی۔بعد ازاں بیماری کے سبب ہی انھیں لاہور سے کراچی آنا اور
مستقل گھر بسانا پڑا۔
مہدی حسن نے شروع ہی سے
محنت کی۔ہر شعبے میں یہاں تک کہ نامساعد حالات کے سبب انھیں سائیکلیں بھی مرمت
کرنا پڑیں اور ایک دور میں وہ مکینک(آٹو موبائل انجینئرنگ کے شعبے سے) بھی وابستہ
رہے ،آپ نے محنت مزدوری کے طور پر سائیکلیں مرمت کرنے اورمکینک کے کام میں مہارت
حاصل کی اور پہلے موٹر مکینک اور اسکے بعد ٹریکٹر کے مکینک بن گئے لیکن ستم ہائے
روزگار رہنے کے باوجود وہ موسیقی کے خیال سے غافل نہیں رہے اور ہر حال میں اپنا
ریاض جاری رکھا۔ یہی محنت انھیں پچاس کی دہائی میں ریڈیو پاکستان لے آئی جہاں سے
انھوں نے باقاعدہ گائیکی کا آغاز کیا۔ پہلے ٹھمری اور بعد میں غزلیں گانا شروع کیں
اور بہت جلد فن کی دنیا میں چھاتے چلے گئے۔ان کے والد استاد عظیم خان اور چچا
استاد اسماعیل خان اّن دور کے نامور کلاسیکل موسیقار تھے۔ مہدی حسن نے اُنھی دونوں
سے فنی تربیت حاصل کی تھی۔ وہ بہت چھوٹی عمر سے پاکستان کی گائیکی کے اُفق پر
جگمگارہے تھے۔
1950 کی دہائی اُن کے لیے
مبارک ثابت ہوئی جب اُن کا تعارف ریڈیو پاکستان کے پروڈیوسر سلیم گیلانی سے
ہوا۔سلیم گیلانی نے ہیرے کی صحیح پہچان کی، چناں چہ ھرپد، خیال، ٹھُمری اور دادرے
کی تنگنائے سے نکل کر یہ جوہرِ قابل غزل کی پرفضا وادی میں آنکلا جہاں آپ کی
صلاحیتوں کو جِلا ملی اور 1960 کی دہائی میں اُن کی گائی ہوئی فیض احمد فیض کی غزل
”گلوں میں رنگ بھرے،بادِ نو بہار چلے“ہر گلی کوچے میں گونجنے لگی۔فلمی موسیقار جو
ان کے فن کو ریڈیو کی گائیکی کہہ کر دامن چھڑاتے رہے تھے، اب جمگھٹا بنا کر اُس کے
گرد جمع ہوگئے، چناں چہ1960-70 کی دہائیوں میں مہدی حسن پاکستان کے معروف ترین
فلمی گائیک بن گئے اور سنتوش کمار، درپن، وحید مراد اور محمد علی سے لے کر ندیم
اور شاہد تک ہر ہیرو نے مہدی حسن کے گائے ہوئے گیتوں پر لَب ہلائے۔
سنجیدہ حلقوں میں ا ن کی
حیثیت ایک غزل گائیک کے طور پر مستحکم رہی۔ اسی حیثیت میں انھوں نے برِصغیر کے
ملکوں کا کئی بار دورہ کیا۔ بھارت میں ا ن کے احترام کا جو عالم تھا وہ لتا
منگیشکر کے اِس خراجِ تحسین سے ظاہر ہوا کہ مہدی حسن کے گلے میں تو بھگوان بولتے
ہیں۔ نیپال کے شاہ بریندرا اُن کے احترام میں اٹھ کے کھڑے ہوجاتے تھے اور فخر سے
بتاتے تھے کہ انھیں مہدی حسن کی کئی غزلیں زبانی یاد ہیں۔
پاکستان کے صدر ایوب، صدر
ضیاءالحق اور صدر پرویز مشرف بھی ا ن کے مداح تھے اور انھیں اعلیٰ ترین سِول
اعزازات سے نواز چکے تھے، لیکن مہدی حسن کے لیے سب سے بڑا اعزاز وہ بے پناہ
مقبولیت اور محبت تھی جو انھیں عوام کے دربار سے ملی۔ پاک و ہند سے باہر بھی جہاں
جہاں ا ردو بولنے اور سمجھنے والے لوگ آباد ہیں، مہدی حسن کی پذیرائی ہوتی رہی
اور1980 کی دہائی میں انھوں نے اپنا بیشتر وقت یورپ اور امریکہ کے دوروں میں
گزارا۔
مہدی حسن کی اولاد:مہدی
حسن کثیرالاولاد آدمی تھے۔ ا ن کے چودہ بچّے ہیں، نو بیٹے اور پانچ بیٹیاں۔ اپنے
بیٹوں آصف اور کامران کے علاوہ انھوں نے پوتوں کو بھی موسیقی کی تعلیم دی اور آخری
عمر میں انھوں نے پردادا بننے کا اعزاز بھی حاصل کرلیا اور اپنے پڑپوتوں کے سر پہ
بھی دستِ شفقت رکھا۔
مہدی حسن کے شاگرد:ا ن کے
شاگردوں میں سب سے پہلے پرویز مہدی نے نام پیدا کیا اور تمام عمر اپنے ا ستاد کو
خراجِ عقیدت پیش کرتے رہے۔ بعد میں غلام عباس، سلامت علی، آصف جاوید اور طلعت عزیز
جیسے ہونہار شاگردوں نے ان کی طرز ِگائیکی کو زندہ رکھا۔
ملکہ ترنم نور جہاں کا
کہنا تھا کہ ایسی آواز صدیوں میں ایک بار پیدا ہوتی ہے، حالاں کہ یہ بات خود میڈم
کی شخصیت پر بھی اتنی ہی صادق آتی ہے۔ آج مداّح اور ممدوح دونوں ہی اِس دنیا میں
نہیں لیکن موت نے صرف اُن کا جسدِ خاکی ہم سے چھینا ہے۔اُن کی لازوال آواز ہمیشہ
زندہ رہے گی۔انھوں نے فلمی گانے گائے تو بھی لا ثانی رہے۔ پاکستانی فلموں کے
ہزاروں گیت اور غزلیں مہدی حسن کے نام سے منسوب ہوئیں۔ انھوں نے فلمی دنیا کو
دوعشروں سے بھی زیادہ کا وقت دیا لیکن پھر اچانک آنے والی بیماری کے سبب1960ع میں
انھیں فلمی دنیا کو خیرباد کہنا پڑا۔
مہدی حسن بھارت اور
پاکستان دونوں جگہ یکساں مقبول ہیں۔ بھارت کے تمام نامور گلوکار مہدی حسن کا دم
بھرتے ہیں۔ بھارت میں مہدی حسن لتا منگیشکر جیسی لیجنڈگلوکارہ کے ساتھ بھی اپنی
آواز کا جادو جگا چکے ہیں۔ لتا بھی مہدی حسن کو بہت بڑا گلوکار تسلیم کرتی ہیں۔ان
کی شاندار غزلوں میں ” آج تک یاد ہے وہ پیار کا منظر، آنکھوں سے ملیں آنکھیں، آپ
کی آنکھوں نے ، آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے، اب کے ہم بچھڑے، اپنوں نے غم دیے تو یاد
آگیا، چلتے ہو تو چاند کو چلیے اور دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے “ شامل ہیں۔
مہدی حسن کو دیے گئے ایوارڈز:مہدی حسن اپنے فن کی بدولت دنیا بھر سے ایوارڈز
حاصل کیے، انھیں جنرل ایوب خان نے تمغہ امتیاز،جنرل ضیاءالحق نے پرائڈ آف
پرفارمنس،جنرل پرویز مشّرف نے ہلالِ امتیازسے نوازا۔اِس کے علاوہ مہدی حسن
کوپاکستان سے ہی نگار فلم ایوارڈ،گریجویٹ ایوارڈ بھی دِیا گیا۔علاوہ ازیں1979میں
بھارت کے شہر جالندھر میں سہگل ایوارڈ سے نوازا گیا اور1983 میں نیپال کی حکومت نے
گورکھاڈکشیناباہوایوارڈ سے بھی نوازاگیااور دیگر درجنوں ایوارڈزبھی دیے گئے۔
مہدی حسن ، پاکستان میں
گائیکی کے شہنشاہ تھے۔ یہ میدان برسوں سے ان کے نام ہے اور آئندہ کئی عشروں تک بھی
شاید ان کا کوئی جواب پیدا نہ ہوسکے۔ پاکستان فلم انڈسٹری سے وابستہ تمام افراد
مہدی حسن کو جو مرتبہ عطاکرتے ہیں وہ ناصرف نہایت اعلیٰ ہے بَل کہ انھیں مہدی حسن
سے والہانہ محبت ہے۔ محبت اور اپنائیت ہی کا نتیجہ ہے کہ سب لوگ انھیں ”خان صاحب“
کہہ کر پکارا کرتے تھے۔
بی بی سی اُردو کے مطابق
دنیائے غزل کے مشہور پاکستانی گلوکار مہدی حسن کے انتقال پر بھارتی شوبز کی نام
وَرر شخصیات نے بھارتی ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے انتہائی غم کا اظہار کیا
ہے۔ممتاز گلوکارہ لتا منگیشکر کا کہنا ہے کہ انھیں لگتا ہے کہ’ ’ایشور“ یعنی
بھگوان مہدی حسن کی آواز میں بولتا تھا۔ ان کی گلوکاری سے یہ صاف ہوتا تھا کہ
انھیں کلاسیکل موسیقی میں مہارت حاصل ہے اور وہ اپنی غزلوں کو اپنے انداز میں عوام
تک پہنچاتے تھے اور یہ ان کی بڑی خوبی تھی کہ وہ مشکل غزل کو آسان بنا کر پیش کرتے
تھے۔لتا منگیشکر کا کہنا ہے کہ مہدی حسن مشکل غزل کو بھی آسان بنا کر پیش کرتے
تھے۔”مجھے یاد ہے کہ میں نے کراچی کے ایک کالج میں گیٹ پھلانگ کر کے ان کی غزل سنی
تھی۔“
لتا کی طرح غزل گلوکار
پنکج ادھاس نے مہدی حسن کے انتقال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے جب
پہلی بار مہدی صاحب کو سنا تو ان پر جیسے جادو ہوگیا تھا۔”اُن دنوں مہدی صاحب کی
کیسٹس مشکل سے ملتی تھیں لیکن میں نے بڑی مشکل سے ان کی کیسٹس خریدی اور انھیں سنا
اور جب بھی میں انھیں سنتا تھا ہر بار مجھے ان کی غزل میں نئی چیز سننے کو ملتی
تھی۔ میں اُن کا مُرید ہوں۔ ان کی موت گلوکاری کے لیے ایک بڑا نقصان ہے۔“
بالی وڈ کے معروف اداکار
انوپم کھیر کے مطابق مہدی حسن ان کے پسندیدہ گلوکار تھے۔
اسی طرح صوفی گلوکار ضلع
خان کا کہنا ہے کہ انھیں بھارتی ہونے کے ناتے اِس بات پر فخر ہے کے ہم نے سرحد پار
کے سنگرز کو یہاں آنے کا موقع دیا اور ہم سب نے ان کو سنا اور لطف اندوز ہوئے۔
میرے لیے مہدی حسن تو عظیم ہیں ’واہ کیا آواز، کیا جادو۔“
ہدایت کار مدھر بھنڈارکر
کا کہنا ہے کہ وہ مہدی حسن کے لیے دعا کرتے ہیں کہ ان کو جنت حاصل ہو۔ ”آپ کی
غزلیں ہمارے ساتھ رہیں گی اور ہم ہمیشہ آپ کے شکرگزار رہیں گے۔“
٭٭٭
feedback: peghaamnews@gmail.com